تازہ تر ین

تقدیرکا کھیل

شفقت اللہ مشتاق
سزائے موت کے عملدرآمد میں ویسے توبے شمار کردار ہوتے ہیں جن میں سپرنٹنڈنٹ جیل ہے جس کی انگلی کے اشارے سے قیدی کی زندگی کی جلتی شمع بجھ جاتی ہے۔ اسکے علاوہ جیل کے ملازمین کی وہ فوج ظفر موج جو خوف و ہراس جوجیل کے کونے کونے میں ڈانگوں سے لیس چاک و چوبند عملہ کی صورت اس عمل کی تکمیل میں مصروف رہتی ہے۔ جلد اپنی بھیانک اور خونخوار شکل لیے سپرنٹنڈ نٹ کے اشارے کا منتظر ہوتا ہے اور میڈیکل افسران کی زبان سے نکل جانے کا اعلان کرتا ہے مجسٹریٹ کا آخری وصیت نامہ تحریر کرنا اس میں بھی حکمت ہے
مرنے والے نے اپنی منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اپنے لواحقین کیلئے پوراایک لائحہ عمل بتانا ہوتاہے۔ چونکہ ان ساری باتوں سے لوگوں کے حقوق کا تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے قانون بنانے والے نے مجسٹریٹ کوہی اس کام پر تعینات کیا تاکہ جوڈیشنل افیسر کے سامنے یہ چیزیں آئیں اور پھر ان کی تکمیل کو یقینی بنایا جائے۔ میں بھی اسی سلسلہ میں پھانسی کے عمل میں شریک ہوتا تھا۔ ایک روز جب میں ایک قیدی (سزائے موت) کی وصیت قلمبندکرنے کیلئے سیل کی طرف مڑاتو ایسے محسوس ہوا۔جیسے میں کسی روحانی محفل میں آگیا ہوں۔ خوشبو نے میری طبیعت کی کیفیت کو بدل دیا۔ پھر میں مزید آگے بڑھا تو اونچی آواز میں مجھے نعت کے خوبصورت بول مترنم لہجے میں سنائی دئیے۔ میں نمازپڑھ کرآیا تھا۔خود بھی درود شریف پڑھ رہا تھا۔ مجھے تویوں محسوس ہوا جیسے عبدکا معبود سے رابطہ ہوگیا ہے۔ میں خوف وہراس کی دنیا سے نکل کرخضوع وخشوع کی پُر کیف فضا میں آگیا ہوں میراجسم ہلکاہوگیااور میرے دل و دماغ میں ایک ایسی کیفیت پیداہوگئی جوانسان میں عاجزی ودرماندگی پیداکرتی ہے اورراغب اِلی اللہ کرتی ہے۔میرادل چاہاکہ میں بھی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاؤں اور اس خوبصورت آواز میں نعت سنتا جاؤں اور اپناایمان تازہ کرتاجاؤں اورنعت خوان کو خوب داددوں حس نے مجرمان کے اس مسکن میں ایک نیارنگ پیداکردیا ایک روح پرورسماں پیداکردیا۔ اچانک مجھے یادآیا کہ پھانسی کا وقت مقرر ہے اور میں ایک سزائے موت کے قیدی کو کیفرکردار تک پہنچانے آیا ہوں۔
میں حالات کی دنیا سے باہر آیا تو میرے سامنے ایک نوجوان شخص کھڑاتھا جس نے اپنے سیل میں اگربتیاں جلاکراردگرد کے ماحول کومع معطر کیا ہوا تھا۔ جس کی بڑھی ہوئی داڑھی تھی پھر اس قیدی نے سزائے موت کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ میرے سلام کہنے پر اس نے مجھے بڑے ادب سے وعلیکم السلام کہا۔میں نے اس کے ہونے والے انجام پراپنے دلی جذبات کا اظہار کیا اور اس کی آخری وصیت قلمبند کرانے کا کہا۔شایدوہ اس دنیا سے مکمل طور پر مایوس ہوچکا تھااس نے محض اپنے والد کو صبر سے زندگی بسرکرنے کی تلقین کی اور پھانسی کا عمل مکمل ہوجانے کے بعد اس کے والد سے میری ملاقات ہوئی ایک بوڑھا جواپنی بینائی کا فی حدتک کھوچکا تھا۔ نحیف ونزاراور اس کے ہاتھ رعشے سے کانپ رہے تھے۔ شدت غم سے نڈھال اس کی آنکھیں اتھروؤں کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کررہی تھیں زبان بات کرتے کرتے اٹک رہی تھی۔ گویا کہ یہ بوڑھا بابا زندہ شخص کی شکل میں مکمل طورپر ایک مراہواانسان تھا۔
میرا ہمیشہ خیال رہا ہے کہ ہلکی پھلکی گپ شپ لگا کر لوگوں کے دکھ درد میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ لہٰذا میں نے سوچا اس سے بات کرتے ہیں۔ بابا جی بڑا دکھ ہوا ہے لیکن یہ کیسے ہوابابے کی بوڑھی آنکھوں نے دنیا میں اتنے سال رہتے ہوئے نہ جانے دنیا میں کیا کچھ دیکھاہوگا اور پھر اوپر سے اس کے جوان بیٹے سے قتل کا ارتکاب، پھر اس بیٹے کے مقدمے کی پیروی کیلئے تھانہ کچہری کے دھکے اور پھر ناکام ونامراد ہوکر جوان بیٹے کی نعش وصول کرنا ان ساری باتوں نے ابے کو سراپا داستان بنادیا تھا۔ کیا خوبصورت بات کی کہنے لگا بیٹا تقدیر کے اپنے فیصلے ہیں زندگی کے اتار چڑھاؤ، خوشی غمی، دھوپ چھاؤں اور زمانے کی نیرنگیاں اسی کی توکرشمہ سازیاں ہیں۔ میں ڈیرہ غازیخان میں رہتا تھا، میرے دوبچے تھے متوفی بڑاتھااوردوسراچھوٹا بیٹا دماغی مریض تھا۔ وہاں دوہی طبقے ہیں ایک امراء کا طبقہ اور دوسرا غرباء۔ ترقی کرنے کے بالکل مواقع نہ تھے۔ میں اپنے بڑے بچے کیلئے بڑ ے بڑے خواب دیکھتاتھا۔ سوچتا تھاخودمزدوری کروں گا اور آمدن سے اس بچے کو پڑھاکر اسے سرکاری نوکری دلاؤں گا۔ میرا یہ خواب تھا جس کی تعبیر مجھے ڈیرہ غازی خان جیسے پسماندہ علاقہ میں نظر نہ آ رہی تھی۔ سوچا کہ فیصل آباد صنعتی شہرہے یہاں محنت کا پھل ملتاہے سب کیلئے ترقی کے یکساں مواقع ہیں۔ یہ سوچ کراپنے بچوں کے ہمراہ فیصل آباد آگیا اور ایک مل میں کام شروع کردیا۔ اس بچے نے میٹرک کیا اور اگلی کلاس میں اس نے داخلہ لینا تھا کہ ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ اس کو پولیس پکڑکرلے گئی ہے۔ تھانہ پہنچا اور معلوم کرنے پر پتہ چلاکہ اس نے ایک پولیس کانسٹیبل کو قتل کیا ہے۔ مجھے چکر آنا شروع ہوگئے، ایک قتل اوپر سے پولیس کانسٹیبل کا اور پھر میں غریب پردیسی بے آسرا شخص۔ لڑکپن میں تھا، ریکارڈ یافتہ بھی نہ تھا ڈاکہ تو اس نے کبھی نہ ڈالاتھا۔ اس کا کسی مجرم گروہ سے بھی تعلق نہ تھا لیکن یہ میری باتیں سننے والاکوئی نہ تھا۔
دوسری طرف پولیس کانسٹیبل اپنی سرکاری ڈیوٹی کے دوران ایک ڈاکو کے پسٹل کے فائر سے مارا گیا تھا۔ اس پر پورے پولیس کے محکمہ میں غم وغصہ پایا جاتا تھا۔ کانسٹیبل شہید ہوکر جملہ پولیس اعزازات کے ساتھ دفن ہوا اور اس کا ایک بھائی جوکہ بی۔ اے تھا محکمہ پولیس نے شہیدکی خدمات کے اعتراف میں اس کو ASI بھرتی کرلیا۔ اس مرحلہ پر بابابولا میرا لڑکا بے گناہ تو نہ تھا اس کے فائر سے واقعی کانسٹیبل شہیدہوا۔ لیکن واردات نہ ہوئی تھی۔اس لڑکے نے ابھی پسٹل لیا ہی تھا کہ ایک چوک میں بیٹھے سپاہی نے فجر کے وقت اس کو دیکھا اور جارحانہ انداز میں بولا۔ ”اوئے ٹھہرتلاشی دے“ وہ ڈرگیاکہ کہیں پولیس مجھے ڈاکو بناکر لوگوں کے سامنے پیش نہ کردے اور اس نے سنسان سڑک دیکھ کر اس کو فائر ماردیا سپاہی مرگیا۔ پھربابے نے ٹھنڈی آہ بھری کہنے لگا وہ کیا مراوہ تو شہید ہوگیا۔ وہ سپاہی تھااس کا بھائی ASIہوگیا۔ مالی امداد اس کے لواحقین کو مل گئی۔ مرتومیں گیا، شہید سپاہی کے ورثاء کی پندرہ سال تکرار میں۔ عدالتوں کی پیشیاں بھگت کر اورسزائے موت کا حکم سن کر مرگیا۔ خواب دیکھ کرساری عمر دھکے کھاتا رہا اورایک لڑکے کوپھانسی چڑھا کر اوردوسرے پاگل لڑکے کی ذہنی معذوری دیکھ کر میں مرگیا،واقعی میں مرگیا۔ لیکن میں تو ابھی زندہ ہوں یہ سارا کچھ دیکھنے کیلئے اور سوچنے کے لئے پھر بابے نے میری طرف غورسے دیکھا اورکہا بیٹا دعاکریں میں واقعی مرجاؤں افسردگی نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، میں بھی چپ تھا سپرنٹنڈنٹ بھی چپ تھا، بابا بھی چپ تھا اور نعش بھی چپ تھی لیکن کاتب تقدیر چپ نہ تھا فضائے بسیط میں آواز گونج رہی تھی۔۔۔۔۔ تقدیر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں“
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر میں
ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain