ڈاکٹر قیس اسلم
وزیراعظم عمران خان نے مصنوعی مہنگائی کے ذمہ دار بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی کا جو فیصلہ منگل کے روز کیا وہ بڑا اہم اور بروقت اور عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے۔ واضح رہے کہ انہوں نے سرمایہ کاروں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور رخنہ ڈالنے والے افسران کے خلاف سخت نوٹس لیا ہے۔
یہ بات قرین حقیقت ہے اور درست ہے کہ صوبوں کے وہ افسران جن کا براہ راست تعلق منڈیوں کے ساتھ ہے وہ ایک طرف تو طاقتور حلقوں کا ساتھ دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ اپنی جیبیں بھی گرم کرتے ہیں۔ یعنی ”باغبان بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی“ اور میری نظر میں اس کے دو اثرات ہیں جو عوام الناس کی جیب اور صحت پر پڑتے ہیں۔ پہلا یہ کہ تاجر افسروں کو دی جانے والی رشوت کی رقم اپنے ناجائز منافع سمیت اشیائے صرف پر ڈال دیتے ہیں جس کا اثر غریب آدمی پر پڑتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تاجر اپنی بیچنے والی چیزوں میں ملاوٹ بھی کرتے ہیں جس کے دو اثرات غریب آدمی پر پڑتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کی دی ہوئی قیمت میں معیاری چیز نہیں ملتی اور دوسرا اس کی صحت بھی خراب ہوتی ہے اور اسے دوائیوں پر اٹھنے والے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ بیوروکریٹ نے قیمت اور کوالٹی کا خیال رکھنا ہے وہی جیب گرم کر کے گھر چلا جاتا ہے، لیکن لُٹ غریب آدمی جاتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری تھا کہ وزیراعظم صاحب اس غلط اور غیرقانونی حرکت کا نوٹس لیتے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ منڈیوں میں تاجر پوری طرح اشیا کو بازار میں نہیں لاتے اور طلب و رسد کے قوانین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں سٹاک کر لیتے ہیں جس سے مصنوعی مہنگائی کرنے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ تیسری جانب جو ہمارے وزیر خزانہ ہیں انہوں نے پارلیمنٹ میں جس چیز کی طرف نشاندہی کی ہے کہ اس سال پاکستان نے خوردونوش کی چیزیں باہر سے منگوائی ہیں، چینی، گندم اور دالیں۔ یہ تینوں چیزیں ڈالر کے ریٹ پر خریدی گئیں اور عوام کو دی گئیں جس سے مہنگائی بڑھی کیونکہ ہماری کھیتی باڑی اس قدر کمزور ہو گئی ہے کہ اب اس سے ملک کے بیس بائیس کروڑ عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔ یعنی ہم خود کفالت کھو بیٹھے ہیں۔ گندم، چاول اور مکئی مل کر جی ڈی پی کا تین فیصد پیدا کرتی ہیں اوردالیں ہماری مل کر دو فیصد پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جی ڈی پی کا کل پانچ فیصد ہے جو ایک زرعی ملک کے لیے باعث شرمندگی ہے۔ اس کی وجہ
-1 بڑھتی ہوئی ہاؤسنگ سوسائٹیز ہیں۔
-2 پانی کی بڑھتی ہوئی قلت ہے۔
-3 اچھا بیج بھی کسان کو بدقسمتی سے میسر نہیں ہے۔
-4 بجلی، تیل اور کھاد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
کسان نے اب خوردونوش کی پیداوار چھوڑ کر پھل اور مویشی پالنا شروع کر دیئے ہیں۔ پچھلے 40 سالوں سے حکومت نے زراعت کی طرف توجہ نہیں دی مگر اب پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ حالیہ بجٹ میں حکومت نے زراعت پر توجہ دینے کی ضرورت کو محسوس کیا ہے۔ جب تک کسان اپنی پیداوار براہ راست بازار میں نہیں لائے گا اور جب تک کھاد اور بیج معیاری اور سستا اسے نہیں ملے گا تب تک وہ آڑھتی اور بیوروکریٹس کے ظلم تلے پستا رہے گا۔
وزیراعظم کا نوٹس اس وقت فعال ہو گا جب انسٹی ٹیوشنل ریفارمز صوبوں اور وفاق میں پیش ہوں گی کیونکہ بیوروکریٹ اپنے بیوروکریٹ بھائی کا احتساب نہیں کرے گا۔ دوسری طرف جو بیوروکریٹس کو مفت گھر، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ اور دیگر لامتناہی مراعات حاصل ہیں وہ بھی ان کی کارکردگی کے ظاہر کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ مفت کی چیزیں ملنے کے بعد ان کو کیا فرق پڑتا ہے کہ بازار میں قیمتیں کم ہوتی ہیں یا زیادہ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو افسران اور ان کے ماتحت اچھا کام کریں اور قانون کے مطابق عوام کو سہولتیں فراہم کریں ان کی تنخواہیں بھی بڑھنی چاہئیں اور ان کو مراعات بھی دینی چاہئیں اور جو افسران یا ان کے ماتحت عوام کو تنگ کریں، جائز ناجائز حربے استعمال کر کے رشوت دینے پر مجبور کریں ان کی مراعات چھین لینی چاہئیں۔ جب سب کی تنخواہیں اور مراعات ایک جیسی بڑھتی ہیں تو کام کرنے والا افسر بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ انسٹی ٹیوشنل ریفارمز کی پہلی شرط ہے کہ کام شفاف ہو، عوام دوست ہو اور باقاعدہ احتساب کی چھلنی سے گزرے۔ اس سے ہماری معیشت کی سمت درست ہو جاتی ہے اور حکومت کی پالیسی بھی عوام تک پہنچتی ہے۔وزیراعظم نوٹس لیتے رہیں گے اور عوام کی حالت یونہی رہے گی لہٰذا ادارہ جاتی ریفارمز وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ کہ اشیائے خوردونوش کی چیزوں پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کر کے سات فیصد لایا جائے۔ اس کے برعکس بے شک لگژری اور پرتعیش اشیاء پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا جائے اس سے حکومت کو بھی نقصان نہیں ہو گا اور غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پسنے سے بچ جائے گا۔ آج کا جدید تقاضا یہ ہے کہ اس ملک کے نوجوان کو مراعات دی جائیں کہ وہ جا کر زراعت میں کسان کا ہاتھ بٹائیں اور نئے اور جدید زرعی سائنسی طریقوں سے فصلوں کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جب تک اس ملک کا پڑھا لکھا نوجوان زراعت کے شعبے سے وابستگی ظاہر نہیں کرے گا اس ملک کا حال بہتر نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ پچھلے چند سالوں سے گاؤں کے نوجوانوں نے شہروں کا رخ کیا ہوا ہے اورلگتا یوں ہے کہ بڑی جلدی گاؤں میں صرف بوڑھے مرد اور عورتیں ہی باقی رہ جائیں گی جس کی وجہ سے زراعت مزید نقصان میں چلی جائے گی۔ یہ یاد رہے کہ اشیائے خوردونوش میں صرف اناج اور دالیں ہی کافی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں سبزیاں، دودھ اور گوشت بھی شامل ہوتا ہے جس کی پیداوار آج کی سائنسی ترقی کی مدد سے بڑھائی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے پیداواری اعتبار سے اعدادوشمار خطے میں بھی اور دنیا میں بھی سب سے کم ہیں کیونکہ اس ملک میں ہم نے ریسرچ بھی چھوڑ دی اور پڑھے لکھے نوجوانوں نے اس طرف توجہ بھی چھوڑ دی جبکہ وقت کی ضرورت یہی ہے کہ ہم ہر وہ چیز پیدا کریں جس میں کم زمین کم خرچہ اور کم محنت سے بین الاقوامی معیار کی چیزیں پیدا کر سکیں جو نہ صرف ہمارے ملک کے عوام کی غذائیت کو بہتر کرے بلکہ ہم ان کو برآمد کر کے زرمبادلہ بھی کما سکیں۔ ایک اور بہت اہم چیز جو ہم اپنے کھانوں میں روزانہ استعمال کرتے ہیں وہ خوردنی تیل ہے جو ہم ڈالر کے بھاؤ باہر سے منگواتے ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں ایکڑ ایسی زمینیں موجود ہیں، آب و ہوا بھی موجود ہے۔ یہاں ہم یہ سب چیزیں بشمول خوردنی تیل حاصل کر سکتے ہیں۔ یعنی چیزیں عوام کو سستے داموں فراہم کی جا سکتی ہیں اور ہمارا سرمایہ بھی بچ سکتا ہے۔
آخر میں ایک بار پھر وزیراعظم کا بیوروکریٹس کے خلاف مصنوعی مہنگائی کے حوالے سے نوٹس لینا بڑا اہم اور بروقت ہے۔ صوبائی حکومتوں کو بھی اس نوٹس کو فی الفور لاگو کر دینا چاہئے۔
(کالم نگار ممتاز ماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭