تازہ تر ین

قائد کے فرمودات اور پاکستان

پاکستان میں ہر سیاسی جماعت جس کا خواہ کوئی بھی نام ہے اسے عزت ملنی چاہئے
 ہمارے پاس کرپشن فری وزیراعظم ہے‘ ہمیں چاہئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں
آج کے دور میں جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو ہم ذرا رک کر سوچیں کہ پاکستان میں واقعی جمہوریت ہے؟ جب ہمارے پاس فوج آتی ہے تو ہمیں اس وقت جمہوریت چاہئے ہوتی ہے اور جب جمہوریت کارفرما ہوتی ہے تب ہمیں فوج مطلوب ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے دوران ہم جمہوریت کو وزن نہیں دیتے بلکہ آپس میں الجھ جاتے ہیں۔ جب بھی کوئی سویلین حکومت آتی ہے تو جو بھی وقت کی اپوزیشن ہوتی ہے اس نے پوری کوشش کرنی ہوتی ہے کہ نئی منتخب ہو کر آنے والی حکومت پر ہر قسم کی تہمت لگائی جائے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ منتخب حکومت نہیں بلکہ سلیکٹڈ حکومت ہے۔ انہی پولیٹیکل پارٹیز کے اندر ایک زندہ مثال جو ہے وہ یہ ہے کہ جب خواتین اسمبلیوں میں آ کر شور و غوغا کرتی ہیں تو کوئی بتا سکتا ہے کہ کیا یہ بھی منتخب ہو کر آئی ہیں یا سلیکٹ ہو کر۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں ہم نے سنجیدگی کو  ضرورت سے زیادہ ترجیح دینی ہے۔ ہم اس حوالے سے قطعی طور پر غیر سنجیدہ ہیں اور ہم کسی بھی چیز کو ماننے کو قطعاً تیار نہیں ہیں۔ اگر کوئی انسان جس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے اگر وہ جرم میں پکڑا جاتا ہے تو پھر اس کے ساتھ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا بینر لگ جاتا ہے اور ایک عام جرم سیاسی جرم بن جاتا ہے۔ ہمارے پاس اس حوالے سے کئی مثالیں موجود ہیں لہٰذا اگر ہم نے سیاست کرنی ہے تو ان رویوں سے ہمیں یکسر باہر نکلنا ہو گا ورنہ ہم اپنی سیاسی جماعتوں کو ایک خراب نام ہی دیں گے اور آپ کی سیاست بالکل ایک منفی راستے پر ڈال دیں گے۔ پاکستان میں ہر سیاسی جماعت جس کا خواہ کوئی بھی نام ہے اسے عزت ملنی چاہئے اور اگر ان سیاسی جماعتوں سے وابستہ ارکان کوئی بھی غلط کام کرے تو اس کی مدد اور حمایت بالکل بھی نہیں کرنی چاہئے۔ سبھی اس بات کا شور تو مچاتے ہیں کہ سسٹم کو چلنے دیا جائے‘ لیکن جب سسٹم چلنا شروع ہوتا ہے‘ ہموار بنیادوں پر تو ہم اسے ڈی ریل کر کے رکھ دیتے ہیں اور اس کا ملبہ ہم دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ آج انتہائی افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ آپ کے پاس ایک منتخب حکومت آئی ہے لیکن ہم اس کو بھی بری طرح گندا کرنے کی کوشش میں مبتلا ہیں۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ حکومت کے حوالے سے بڑے سنجیدہ ایشوز ہیں لیکن یہ نہیں کر سکتے کہ آپ اسے وقت سے پہلے چلتا کر سکیں۔ چونکہ ایک کہاوت ہے گول چکر میں جو کوئی بھی گیا ہے وہ گول چکر اسے واپس ضرور لاتا ہے۔
اگر تو ہم نے بالکل سطحی اور بنیادی سطح پر یعنی چھوٹے لیول پر سیاست کرنی ہے تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہمیں یہاں کسی چیز کی کمی ہر گز ہرگز نہیں لیکن اگر کمی ہے تو وہ مینجمنٹ کی کمی ہے جو بھی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں ان کو چاہئے کہ جن اداروں میں چیئرمینز‘ مینجنگ ڈائریکٹر لگاتے ہیں وہ کوالیفائیڈ ہوں نہ کہ ہم جو خانہ پری دیکھتے ہیں اور اس کے بعد اس ادارے کا حال۔ آج افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان ریلویز جب یہ این ڈبلیو آر ہوتا تھا تو اس کی پٹڑی لنڈی کوتل تک جاتی تھی اور ہمارے علاقے جیسے کہ منڈی بہاؤ الدین‘ بھلوال تک ریلویز کے ٹریک ہوتے تھے‘ آج یہ کیوں نہیں ہے حالانکہ ماضی کے مقابلے پر ریلویز کی حالت تو بہت بہتر ہونی چاہئے تھی۔ آج بھی انگریز کے بنائے ہوئے ریلوے سٹیشنز‘ اس کی بنائی ہوئی پٹڑیاں‘ اس کے نصب کردہ سگنلز اور ریلوے کراسنگ‘ ان کی حالت دیکھ کر انا للہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہم پی آئی اے جیسے ملک کے ایک اہم اور بڑے قومی ادارے کو دیکھیں تو ہم نے اس کی  بھی نماز جنازہ پڑھا دی‘ صرف ایک جذباتی بیان کے ساتھ‘ ہم نے تمام پائلٹس کو بیک جنبش قلم فارغ کر دیا اور اس کی وجہ سے پی آئی ایک  مفلوج ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہی حالت ہم نے پاکستان سٹیل ملز کی کی ہے اور دیگر قومی ادارے جیسے کہ نیشنل بینک اور ای او بی آئی وغیرہ کو بھی متنازعہ بنا رکھا ہے۔ آج ہمارے پاس ایک کرپشن فری وزیراعظم ہے‘ ہمیں چاہئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے تاکہ ملک میں بہتری کے آثار پیدا ہو سکیں‘ لیکن ساتھ ساتھ ایک چیز اور بھی مدنظر رکھنی ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام نے وزیراعظم پر بھروسہ کیا ہے۔ اب جو ان کی ٹیم ہے اسے بھی چاہئے کہ وزیراعظم کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے کام کریں کیونکہ ان کے پاس آئندہ کبھی موقع نہیں آ سکے گا اگر انہوں نے دیانتداری کے ساتھ اس کا ساتھ نہ دیا۔
وزیراعظم کی کارکردگی آپ کو نظر آتی ہے کہ فارن ریزروز ماضی کے مقابلے پر قدرے بہتر ہوئے ہیں اور اگر واقعی دلجمعی اور لگن کے ساتھ کام کیا جائے تو اس بڑھوتری میں مزید اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارت میں 29 فیصد ایکسپورٹس بڑھی ہیں یعنی اضافہ ہوا ہے اور بھی کئی شعبوں میں ہم نے بہتری دیکھی ہے حالانکہ دنیا میں کووڈ نے ہر ایک کو صحت اور معیشت کے حوالے سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ موجودہ حکومت کی مشکلات اور اسے درپیش چیلنجز روز افزوں سے ہیں اور اس حالت میں ہم سب نے مل جل کر کام کرنا ہے۔ ہم نے بہت زیادہ قیمت ادا کی ہے اس وقت جیو پولیٹیکل حوالے سے حالت ہے اور اس وقت جو منصوبہ سازی کی جا رہی ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج واپس چلی جائیں اور ہم پر دباؤ ڈالا جائے کہ امریکیوں کو ہم یہاں ہوائی جہاز کے اڈے دے دیں۔ یہ ہم نے ماضی میں غلطی کی جب ہم پر دہشت گردی مسلط کی گئی تو ہمیں اس کا خمیازہ بھی اکیلے بھگتنا پڑا کیونکہ یہ وہی امریکی ہیں جنہوں نے ہمیں استعمال کیا اور پھر ایک گنڈیری کی طرح چوس کراس کا پھوک نیچے گرا دیا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کے کسی وزیراعظم نے ماسوائے فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل مشرف کے علاوہ کسی نے اتنا بڑا سٹینڈ لیا ہو۔ آج ہمارے وزیراعظم نے سٹینڈ لیا ہے اور امریکی وہی ان کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں کہ ہم نے 27 میں سے 26 شرائط مان لیں اور محض ایک شرط پر ہمیں گرے لسٹ میں رکھا جا رہا ہے۔ اس سے بڑی زیادتی پاکستان کے ساتھ اور کیا ہو سکتی ہے لہٰذا ہمیں آج کی اپوزیشن سے بہت زیادہ امید ہے کہ خدارا اگر تو تنقید کرنی ہے تو تنقید برائے تعمیر کریں کیونکہ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب نوازشریف 2013ء میں اپنا منشور پیش کر رہے تھے تو اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں حکومت سنبھالوں یا نہ سنبھالوں کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا۔ ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ قائداعظم کے تین الفاظ یونٹی‘ ڈسپلن اور فیتھ کو مضبوط بنا کے پاکستان کو آگے لے کر جائیں۔
(کالم نگار معروف اینکر اور ممتازسیاسی تجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭

اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain