محمدنعیم قریشی
ہر چند کہ مجموعی طور پر بزنس کمیونٹی کی طرف سے موجودہ بجٹ کو خوب پذیرائی ملی ہے اور یقینا ان کی بہت سی تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنایا گیا ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح سرکاری بابوؤں نے اپنی روایت کے مطابق کہیں نہ کہیں اسے پوری طرح بزنس فرینڈلی اور عوامی بجٹ بننے سے روکنے کی کوشش کی ہے یہی وجہ ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے شکایات کی جار ہی ہیں، حتیٰ کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے بھی شکایات موصول ہوئی ہیں، اس سلسلے میں مختلف شعبوں سے وابستہ دوستوں نے ایک کالم نگا رکی حیثیت سے مجھے کہاہے کہ میں اس سنجیدہ مسئلے پر اپنے قلم کا استعمال ضرورکروں،آئیے ہم ان شکایات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارے سرکاری بابوؤں نے ایسا کیاکمال کردکھایا ہے اور پس پرد ہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے وژن کو کس طرح سے دھندلانے کی کوشش کی ہے!سب سے پہلے ایک موقر جریدے میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ایف بی آر کو سپریم کورٹ کے اختیارات دینے کی کوشش کی جارہی ہے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اپنے افسران کے غیر قانونی اقدام کو تحفظ دینے کیلئے فنانس بل 2021 کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترامیم تجویز کردی ہیں اسی بارے میں ایف بی آر ذرائع نے بتایا کہ یہ ترامیم لا ڈویژن کی توثیق کے بعد فنانس بل میں شامل کی گئی ہیں وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ کے ساتھ پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پیش کردہ فنانس بل 2021 کے ذریعے آمدنی چھپانے سے متعلق انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی سیکشن 111 میں ترمیم تجویز کی ہے سیکشن 111 کی ذیلی شق پانچ میں ترمیم تجویز کرکے شک دور کرنے کے نام سے ایک نئی وضاحت شامل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس دہند گان سے ذرائع آمدنی پوچھنے کریڈٹ ہونیوالی رقم، سرمایہ کاری کی رقم کی قیمتی اشیا اورظاہر کردہ اخراجات کے ذرائع آمدن پوچھنے کے لئے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی سیکشن 122 کی ذیلی شق 9 کے تحت نوٹس جاری کئے جانے کے بعد سیکشن 111 کے تحت الگ سے نوٹس جاری کرنے کی کوئی ضرورت ہے، اسی طرح کسٹم ایکٹ میں غیر معمولی ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
نئی مالیاتی بل 2021 کے ذریعے کسٹم ایکٹ کے سیکشن R-155 میں ترامیم کی گئی ہیں کمپیوٹرائزڈ، گڈز ڈیکلریشن میں کلاریکل یا ٹائپ کی غلطی پائی گئی توسیکشن 29 کے تحت ایکسپورٹریا امپورٹر کم سے کم اسٹنٹ کلکٹر کے عہدے کے افسر کو یہ غلطی درست کرنے کی درخواست دے گا۔ کسٹم ایکٹ کے سیکشن 156 کے تحت جی ڈی میں پہلی بار غلطی پر ایک لاکھ روپے پنیلٹی لگے گی، دوسری بار غلطی پر جی ڈی میں غلطی پکڑے جانے پر 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا تیسری بار ایسی غلطی پکڑی گئی تو امپورٹر /ایکسپورٹر کو 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا چوتھی بار گڈز ڈیکلر یشن میں غلطی ہوئی تو تمام اشیا ضبط کرلی جائیں گی اور وہی لوگ یو زر آئی ڈی ایک سال کیلئے بلاک کر دیا جائے گا! کسٹم ایکٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جی ڈی کے ساتھ ضروری دستاویزات منسلک نہیں کرے گا یا ضروری دستاویزات الیکٹرانکلی اپ لوڈ نہیں کرے گا تو اسے پہلی بار 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔
دوسری مرتبہ ایک لاکھ تیسری بار ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا اورچوتھی بار 2 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا اور پانچویں بار کسٹم ایکٹ 1969ء کے سیکشن 79 یا 131 کے تحت پانچویں بار اڈھائی لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا اس کیساتھ ساتھ پہلے سے موجود جرمانوں میں بھی حکومت نے غیر حقیقی اور ظالمانہ اضافہ تجویر کیا ہے موجود ہ قانون کے تحت اگر کسی کنسائنمٹ کے ساتھ انوائس اور پیکنگ لسٹ موجود نہ ہو تو 5 ہزار روپے جرمانہ کیا جاتا ہے لیکن فنانس بل 2021 میں تجویر کیا گیا کہ اگر انوئس اور پیکنگ لسٹ موجود نہ ہو تو پہلی بار ایک لاکھ روپے دوسری مرتبہ 5 لاکھ اور تیسری مرتبہ 10 لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے اور چوتھی مرتبہ ایساہوا تو پورا مال ضبط کرلیا جائے سیکشن 127 میں تجویز کیا گیا ہے کہ سب سیکشن (1) کے تحت اسیسمنٹ آرڈر کے خلاف اس وقت تک اپیل نہیں کی جاسکتی جب تک آرڈر کے تحت ٹیکس ادا نہ کیا جائے ان بڑی اور بنیادی نوعیت کی تجاویز کے علاوہ ایسی بہت سے تجاویز ہیں جن پر بزنس کمیونٹی کو شدید اعتراضات ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ان تجاویز کابغور جائزہ لیا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ ان تجاویز کا مقصد بزنس فرینڈلی ماحول کو خراب کرنا ہے مجرموں پر بھی اتنے بڑے جرمانے عائد نہیں کئے جاتے جتنے تاجر برادری پر اس وقت کئے گئے ہیں۔ مثلاً انوائس کا معاملہ لیجئے چین سے شپمنٹ میں کئی دفعہ ڈاکومنٹس ایک شہر سے اور شپمنٹ دوسرے شہر سے کی جاتی ہے اور ایگزئمیشن ایریاز میں امپورٹر یا ان کے نمائندے جا نہیں سکتے کچھ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ انوائس موجود تھی یا نہیں اس طرح بلیک میلنگ کا ہتھیار نوکر شاہی کے ہاتھ آجائیگا۔
یہاں یہ بتانا بھی مناسب ہوگاکہ ان جبری طریقوں سے کبھی بھی ریونیو میں اضافہ نہیں ہوگا، فی الحال یہ خبر باعث اطمینان ہے کہ بزنس کمیونٹی کے احتجاج کے بعد ایف بی آر نے فنانس بل 2021-22 میں موجود قانونی اور تکنیکی خامیوں کو دور کرکیلئے دو کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ سقم دورکرنے والی ایک تکنیکی کمیٹی کے چیئر مین نعیم اختر شیخ ہوں گے جب کہ شریک چیئر مین ایف بی آر کے ممبرآئی آرپالیسی چودھری محمد طارق اور ممبر کسٹم پالیسی سید حامد علی ہونگے دیگر ممبر ان میں اشفاق تولہ، عبدالقادر میمن سرپرست پاکستان ٹیکس بار کراچی اور دیگر شامل ہیں جبکہ دوسری بزنس کمیٹی چیئر مین ایچ بی ایل کے سلطان علی الانہ کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے جبکہ شریک چیئر مین ایف بی آر کے ممبر آئی آر پالیسی چوہدری محمد طارق اور ممبر کسٹم پالیسی سید حامد علی ہونگے دیگر ممبران میں ایف پی سی سی آئی کے صدر میا ں ناصر حیات، کراچی چیمبر کے صد ر محمد شارق دہرہ لاہور چیمبر کے صدر میاں طارق مصباح اور دیگر شامل ہیں دونوں کمیٹیوں کے ٹی او آرز میں نشاندہی ہونے والی قانونی اور تکنیکی خامیوں کو ازسر نو پر کھنا اور ایف بھی آر کو تصحیح کے لئے مشورہ دینا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کمیٹیاں بزنس کمیونٹی کی پوری طرح سے نمائندگی کریں گی اور ہر طرح کے ظالمانہ قانون کی بھر پورمذاحمت بھی کریں گے۔آخر میں میں یہ ہی کہوں گا کہ ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کو کم ازکم یہ ضرور سوچنا چاہیے کے کہ جو لوگ ٹیکس نیٹ میں آکر کسی نہ کسی طرح ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کردار کر رہے ہیں وہ یقینی طورپر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ایسے لوگوں پر اس قسم کی سختیاں بلکہ یہاں تک کہ ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دینابھلا کہاں کی عقلمندی ہے، لہٰذا ان پرجان لیوا سختیوں کو لگاکر ان لوگوں کو کاروبار سے بیزار نہ کیاجائے،بلکہ ان کو ایسی سہولتیں فراہم کی جائیں کہ ان کے ذریعے دوسرے لوگ بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭