لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
اگر ہم پچھلے 20 برسوں پر نظر دوڑائیں تو افغانستان میں مسلسل کشت و خون ہوتا رہا ہے جس کا اثر براہ راست پورے خطے اور بالخصوص پاکستان پر پڑا۔ وہ امریکی اور نیٹو افواج جو یہاں پر امن کا پیغام لے کر وارد ہوئی تھیں ان کی موجودگی میں اور ان کے زیر اثر نہ صرف یہ کہ افغانستان لگاتار سول وار میں پھنسا رہا بلکہ منشیات کی کاشت اور تیاری میں بھی وہاں ہر سال بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔
مالی اور اخلاقی بدعنوانیاں بھی زور پکڑتی رہیں، جبکہ نہ تو معدنیات نکالی گئیں اور نہ ہی وہاں صنعت و حرفت فروغ پا سکی اور طرہئ امتیاز یہ رہا کہ جب 20 سال امریکی افواج کو یہاں رہنے کے بعد کوچ کرنا پڑا تو جاتے ہوئے ایک شوروغوغا پایا گیا کہ اب افغانستان جنگ کی طرف جائے گا یہاں پر سول وار ہو گی اور ایک دفعہ پھر زوروشور سے کشت و خون ہو گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں بھی یہی کچھ ہو رہا تھا اور کبھی انہوں نے یہ کاوش یا کوشش نہیں کی کہ مختلف افغان دھڑوں کو آپس میں ملوا کر امن قائم کریں اور نکل جائیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ تو وہ یہاں سے جانا چاہتے تھے اور نہ ہی یہاں امن قائم کرنے کے متمنی تھے اس لئے کہ ان کے جو اہداف تھے جن میں چین کے اثرورسوخ کو روکنا، روس کو گرم پانیوں تک پہنچنے کے راستے میں دیوار کھڑی کرنا اور سنٹرل ایشیا ممالک کو سمندر تک پہنچنے سے محروم رکھنا، ایران کے ایٹمی پروگرام پر نظر رکھنا اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی نقل و حمل کو دیکھتے رہنا وغیرہ وغیرہ اور بہانہ کیا تھا کہ ہم یہاں پر یا یہاں سے شدت پسندی ختم کرنے کے لئے آئے ہیں اور جمہوری نظام کی ترویج کے لئے موجود ہیں اور یہ دونوں کام بھی وہ نہ کر پائے۔ اب جبکہ افغان طالبان کے پریشر کی وجہ سے انہیں سے یہاں سے جانا پڑ رہا ہے اور وہ جا رہے ہیں تو یہ بیانیہ چھوڑا جا رہا ہے کہ یہاں پر ایک خلا پیدا ہو جائے گا اور افغان طالبان بزور بازو یہاں پر مسلط ہو جائیں گے اور افغانستان 20 سال پہلے والے حالات کا شکار ہو جائے گا۔ میری ناقص رائے میں ایسا قطعاً نہیں ہے کیونکہ افغانستان اور اس خطے میں امن لانے کے لئے پہلا قدم بیرونی افواج کا یہاں سے نکلنا ہی بنتا ہے، باقی دیگر اچھے کام امریکی اور نیٹو افواج کے یہاں سے انخلا کے بعد ہی ممکن ہو سکیں گے۔ قابض فوجوں کے کسی ملک سے نکلنے پر عموماً جشن منائے جاتے ہیں اور یہاں کچھ حلقوں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور یہاں پر بالکل امریکی بیانئے کو دہرایا جا رہا ہے۔
میری نظر میں افغانستان کی تاریخ اس کا جغرافیہ اور کلچر ہی یہاں کے مستقبل کی بنیاد بنیں گے جس میں عین ممکن ہے کہ آپس میں تھوڑی سی زور آزمائی کریں۔ اس کے بعد ایک گرینڈ جرگہ ہو گا اور افغان دھڑے مل بیٹھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لیں گے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے اس میں صرف ایک شرط لازم ہے کہ کوئی بھی بیرونی طاقت یا ہمسایہ ملک افغان امور میں قطعاً مداخلت نہ کرے اور انہیں صرف وہ معاونت مہیا کی جائے جن کا کہ وہ خود تقاضا کریں۔ ہم اُمید کریں گے کہ تمام افغان دھڑوں اور اردگردکے ممالک نے اپنا اپنا سبق سیکھا ہو گا اور افغان طالبان کی طرف سے بار بار یہ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اکیلے ملک پر حکومت کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ وہ سب کے ساتھ مل جل کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور موجودہ آئین کو مشاورت کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے تمام مخالفین کو جو ہتھیار ڈال دیں اور نئے نظام کی تشکیل میں مددگار ہوں ان کے لئے عام معافی کا اعلان بھی کیا ہے جہاں تک افغان مہاجرین کے سیلاب کا پاکستان کی طرف آنے کا خدشہ اور خطرہ ہے اس کی راہ میں تین چار رکاوٹیں موجود ہیں۔ پہلی بات یہ کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ بارڈر پر بہت مضبوط باڑ لگا دی ہے اور غیر قانونی طریقوں سے پاکستان آنا اور یہاں سے جانا قریب قریب ناممکن ہو چکا ہے اس کے علاوہ افغان طالبان کا رویہ عوام کی طرف بہت سخت گیر نہیں ہے۔ آپ اندازہ لگا لیجئے کہ ایک تہائی سے زیادہ افغانستان کی سرزمین پر طالبان قبضہ کر چکے ہیں اور ایک بھی پناہ گزین ابھی تک پاکستان کی سرحدیں عبور کر کے یہاں نہیں پہنچ سکا۔
عین ممکن ہے کہ جب کابل اور اس کے گردونواح میں جنگ چھڑے تو پھر مہاجرین اس طرف آنے کی کوشش کریں لیکن وہ یقینا اتنی تعداد میں نہیں ہوں گے کہ وہ پاکستان کے لئے کسی قسم کے خطرات پیدا کر سکیں اور جس خانہ جنگی کا خدشہ ہے وہ بھی بہت لمبی ”ناں“ ہونے کا امکان ہے۔ ہمیں ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ اگر افغانستان میں امن چاہتے ہیں تو امریکہ اور بھارت کو اس خطے سے دور بہت دور رکھنا پڑے گا اور چین، روس، ایران پاکستان وہ چار کلیدی ممالک ہیں جو مل بیٹھ کر افغانستان کی معاونت کر سکتے ہیں کہ وہ ایسے ملک میں کوئی اچھا نظام تشکیل دے لیں، اس طریقے سے وسط ایشیائی ممالک بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور یوں افغانستان اوراردگرد کا خطہ ایک روشن مستقبل کی ضمانت حاصل کر سکتا ہے اور ہماری نظر میں بالکل یہی ہونے جا رہا ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جن کو افغانستان میں ڈارک پکچر نظر آتی ہے اور تاریک مستقبل خدانخواستہ نظر آتا ہے وہ اس کی روزی پکچر اور تابناک مستقبل کو بھی سامنے رکھیں، امریکہ بھارت اور اشرف غنی کا بیانیہ آگے بڑھانے سے اجتناب کریں، انشاء اللہ افغانستان اچھے دنوں کا منتظر ہے اور ایک بہترین مستقبل اس کا مقدر بننے جا رہا ہے۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭