تازہ تر ین

وہ جا رہا ہے جیسے شب غم گزارکے

عارف بہار
امریکی فوج نے بیس سال بعد افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ائر بیس خالی کر کے افغان فورسز کے حوالے کردیا۔بگرام ایک فوجی اڈہ ہی نہیں ہزاروں افراد کے قیام گاہ اور ان تمام جدید سہولیات سے مزّین ایک شہر تھا جو امریکی شہریوں کو اپنے ملک میں حاصل ہوتی ہیں۔جدید سامان کے جیم،مارکیٹس،کھیلوں کے میدان،جہازوں کے اترنے اور اُڑان بھرنے کے رن ویز،عبادت خانے غر ضکہ دنیا کی ہر سہولت اس شہر کے مکینوں کو حاصل تھی۔بگرام ائر بیس وہی فوجی مرکز ہے جہاں عافیہ صدیقی کو قید رکھنے کے بعد امریکہ منتقل کیا گیا تھا۔اسی مرکز میں خطے کی تشکیل جدید کے منصوبے بنائے جاتے اور پھر ان پر عمل درآمد کے لئے نان سٹیٹ ایکٹرز کو ہدف دئیے جاتے تھے۔سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان گھرے ہوئے اس نوآباد شہر کے درودیوار دوسری بار ایک بڑی فوج کی آمد ورفت کے گواہ بھی ہیں اور اس کا احوال بھی سنارہے ہیں۔بگرام سے امریکہ کی رخصتی کی اہمیت کیا ہے اس کو ہم شکست کہیں گے یا شکست کی علامت تو بہت سے لبرل دوست ناراض ہوجائیں گے مگراس حقیقت کو جاننے کے لئے امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی کیتھی گینن کی ایک رپورٹ سے مدد لی جا سکتی ہے۔کیتھی کینن لکھتی ہیں باڑھ کے پیچھے اور جنگی دیواروں سے پرے یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے۔جس کی تعمیر کا آغاز سوویت یونین نے پچاس کی دہائی میں کیا تھا۔بعد میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو دس سال یہ ان کا مسکن رہا۔1989میں سوویت فوجیں بگرام خالی کر گئیں تو اس کا کنڑول نجیب حکومت نے سنبھالا تو تین سال بعد سقوط کابل ہوا اور بگرام طالبان کے کنٹرول میں آیا۔کیتھی لکھتی ہیں کہ بگرام سے امریکی فوج کا انخلاء طالبان کی”سٹریٹجک فتح“ہے۔سٹریٹجک وکٹری اور عام فتح میں کیا فرق ہے؟ یہ تو وہی بتا سکتے ہیں جن کا موقف ہے کہ امریکہ کو شکست نہیں ہوئی۔کیتھی گینن کے مطابق بیس سال سے اس شہر میں ایک لاکھ افراد مقیم تھے۔یہاں ایک بڑی جیل ہے جس میں اس وقت بھی سات ہزارقیدی موجودہیں۔کیتھی کے مطابق اس جیل سے وابستہ ٹارچر کی کہانیوں کی وجہ سے افغان والدین اپنے بچوں کو اس جیل کا نام لے کر ڈرایا کرتے تھے۔ افغانستان میں طالبان منظر پر اتنی ہی تیزی سے غالب ہو رہے ہیں جتنی سرعت سے وہ بیس سال قبل منظر سے غائب ہو گئے تھے۔ اس وقت طالبان کا اچانک گم ہوجانا بھی ایک معمہ تھا آج ان کا منظر پر غلبہ آجانا دونوں ایک معمہ ہے۔امریکی فوجی جو مال ومتاع افغان فوج کے حوالے کرکے رخصت ہورہے ہیں وہ طالبان کے ہاتھ لگ رہا ہے۔گاڑیاں،ٹینک اور ہیلی کاپٹر سب کچھ طالبان کے تصرف میں آرہا ہے۔
جلد یا بدیر بگرام ائر بیس پر کنٹرول کے لئے بھی ایک معرکے کی پیشن گوئی کی جارہی ہے۔افغانستان سے امریکی انخلا ہو رہا ہے اوریہ انخلا بھی سوویت انخلا کی طرح ادھورا ہے کیونکہ اس وقت بھی کابل میں ایک ڈولتی ہوئے نجیب حکومت تھی اور چاروں طرف مجاہدین کے جتھوں اور سیلاب بلاخیز کے چرچے تھے۔ آج جب امریکہ انخلا کر رہا ہے تو کابل میں اشرف غنی کی حکومت طالبان کے سیلاب میں ایک جزیرے کی مانند ہو کر رہ گئی ہے۔یہ جزیرہ بھی پانی کی لہروں میں نمک کی طرح تحلیل ہو رہا ہے۔افغانوں کا قومی کنفیوژن آج بھی اسی طرح جوبن پر ہے۔
سوویت یونین کو مسیحا اور مجاہدین کو دشمن اور اجڈ سمجھنے والے افغانوں کے خیال میں آج مسیحا امریکہ جارہا ہے اور طالبان کی صورت دشمن ان پر حاوی ہورہا ہے۔اس منظر کو بدلنے کے لئے اشرف غنی نے واشنگٹن کا دورہ کیا مگر جو بائیڈن نے انہیں خالی ہاتھ لوٹا دیا کیونکہ امریکہ اب افغانستان میں زمینی موجودگی سے توبہ تائب ہو چکا ہے۔وہ صرف فضاؤں سے بم گرا کر اپنا شوق جاری رکھنا چاہتا ہے مگر اس کے لئے فضائیں میسر نہیں آرہیں۔بگرام سے امریکہ کی رخصتی کا طالبان نے بھی خیرمقدم کیا ہے اور اس انخلا کو امریکہ کی شکست کے انداز میں دیکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔امریکہ اس لفظ سے بچنے کے لئے حیلوں بہانوں کی تلاش میں رہا اور اب بھی اس اصطلاح کا سامنا کرنے کو تیار نہیں مگر امریکہ کچھ مقاصد کے لئے افغانستان آیا تھا۔پہلا مقصد تو امریکہ کو محفوظ بنانا تھا تاکہ دوبارہ کوئی گروہ افغانستان کی چھتری تلے نائن الیون جیسے حملے کی منصوبہ بندی نہ کر سکے اور دوسرا مقصد افغانستان کو جمہوری،لبرل اور مستحکم ملک بنانا تھا جہاں دوبارہ مجاہدین یا طالبان جیسے کسی گروپ کو طاقت حاصل نہ ہو سکے۔بیس سال امریکہ نے افغانستان کو طالبان فری بنانے میں صرف کئے۔
افغان حکومت پر وسائل کی بارش کرکے اسے مستحکم ہونے کا موقع فراہم کیا۔بیرونی دنیا میں آباد اپنے پسندیدہ ٹینکو کریٹس کو حکومت کی معاونت پر بٹھا کر ایک مضبوط سول سٹرکچر تشکیل دینے کے کام پر لگایا مگر اس سے ایک حکمران اشرافیہ وجود میں آئی جس نے مغربی وسائل کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔امریکہ اور برطانیہ کے قانون پسند اور دیانت دار ٹینکو کریٹ افغانستان پہنچتے ہی بدعنوانی میں لتھڑ کر رہ گئے۔جس فوج کو بیس سال امریکی میرین اور نیٹو کے بہادر انسٹرکٹر تربیت دیتے رہے اس کا حال یہ ہے کہ طالبان کو دور سے آتا دیکھ کر چوکیاں ان کے احترام میں خالی کررہی ہے اور ٹینکوں توپوں سے گولے داغنے کی بجائے ان کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔پندرہ سو فوجی تاجکستان کی بے نام منزلوں کی جانب نکل گئے ہیں اور افغان حکومت انہیں واپس بلارہی ہے مگر وہ آنے سے انکار ی ہیں۔بیس سال بعد افغانستان نہ جمہوری بنا نہ محفوظ اور لبرل۔اس ملک کی حالت پہلے سے زیادہ بگاڑ کا شکار ہے اور خانہ جنگی کا ایک عفریت سامنے کھڑا ہے۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain