میم سین بٹ
لاہورمیں حکام بالاکے احکامات نہ ماننے پرکاشانہ کی سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کے بعد اب رنگ محل سرکل کے سابق ڈی ایس پی عمران بابر جمیل کو بھی گرفتارکرلیاگیاہے ہم سوشل میڈیا پر افشاں لطیف کو اپنی معطلی کے خلاف انصاف کیلئے اکثرمال روڈ پراحتجاجی مارچ کرتے دیکھتے رہے تھے بالآخر پولیس نے اسے کسی مقدمے میں شوہر سمیت حراست میں لے کر زندان میں ڈال دیا۔ عمران بابرجمیل بھی برطرفی کے بعد بحالی کے لئے لاہور اور اسلام آباد کے درمیان شٹل سروس بنا خوار ہوتا رہا بالآخر اب اسے بھی سابق ماتحت مال روڈ سے اٹھاکر پولیس ڈالے میں ڈالنے کے بعد تھانہ سول لائنزلے گئے اور مقدمہ درج کرکے اسے بھی حوالات میں بند کردیا ہے۔
تقریباََ ایک عشرہ قبل لاہور میں ڈی ایس پی نے اپنے ہی محکمے کے ایس پی سی آئی اے پر مجرموں کی سرپرستی کا الزام عائد کرکے پولیس اورمیڈیا میں ہلچل مچا دی تھی پتا چلاتھاکہ شہریوں نے ڈاکو پکڑکرڈی ایس پی رنگ محل کے حوالے کئے تھے اورجب ایس پی سی آئی اے نے ڈی ایس پی سے ملزم مانگے تو اس نے انکارکردیا تھا بعدازاں ڈی ایس پی لڑکی کے کیس میں ملوث قراردیدیا گیا اور اس پر مزید نصف درجن مقدمات درج کر کے اسے ملازمت سے برطرف کردیاگیا تھا جس کے بعد وہ ڈی ایس پی منظر سے غائب ہوگیا اورلوگ بھی اسے بھول گئے تھے البتہ سی آئی اے کے اس ایس پی کوبعدازاں عدالت نے دوبارہ سب انسپکٹر بنا دیا تھا۔
کچھ عرصہ قبل ہم حسب معمول نائٹ ڈیوٹی کے بعد پریس کلب پہنچ کرکیفے ٹیریا سے کھانا کھانے کے بعد صحن میں کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھے تووہاں ایک مہمان کی گفتگو سن کر انکشاف ہوا کہ وہ محکمہ پولیس کے وہی برطرف ڈی ایس پی عمران بابر جمیل ہیں جنہوں نے بتایا کہ عدالت نے ان کیخلاف درج سارے کیسز ختم کردیئے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالت نے اب انہیں بطورڈی ایس پی رنگ محل ملازمت پر بحال کرنے کا حکم بھی دیدیا ہے تاہم محکمہ پولیس نے کہا ہے کہ عدالتی احکامات ڈاک سے موصول ہونے کے بعد ہی انہیں چارج دیا جائے گا۔ اگلے روز عمران بابر جمیل سے دوبارہ ملاقات ہوئی توگفتگوکرتے ہوئے انہوں نے مزید انکشاف کیاکہ وہ معروف شاعروادیب پروفیسر جمیل یوسف کے صاحبزادے ہیں خود انہوں نے بھی پی ایچ ڈی کررکھی ہے اورمختلف تعلیمی اداروں میں پڑھاتے بھی رہے ہیں، پھر وہ خاصی دیر تک اپنے والدکی شاعری سناتے اورہم سے داد حاصل کرتے رہے جمیل یوسف کا یہ شعر ہمیں بے حد پسند ہے۔۔۔
ہر اک سے تیری محبت کی داستاں کہہ دی
میں یہ خزانہ چھپا کر بھلا کہاں رکھتا
پروفیسرجمیل یوسف معروف شاعر ہی نہیں سفرنامہ نگار،مورخ اور نقاد بھی ہیں،ان کی پہلی غزل ساتویں جماعت میں روزنامہ ”تعمیر“راولپنڈی کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی۔”غزل“، ”غزال“،”گریزاں“،”شہرگماں“،”موج صدا“ ان کے شعری مجموعے ہیں،جمیل یوسف کے والدین سکول ٹیچر تھے اس لئے گھر کا ماحول علمی و ادبی تھاوالد شیخ محمودیوسف نے سکول لائبریری سے بیٹے کو ”شاہنامہ اسلام“ لاکر پڑھایا تھا۔جمیل یوسف تاریخ کے مضمون میں ایم اے کرکے رحیم یار خان کے سرکاری کالج میں لیکچرر مقرر ہوگئے تھے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد بھی ان کے ساتھ وہاں لیکچرر رہے تھے اس زمانے میں پروفیسر جمیل یوسف نے مغلیہ عہدکے حوالے سے ”بابر سے ظفر تک“ کے عنوان سے کتاب لکھی تھی اور اپنے بچوں کے نام بھی مغل شہنشاہوں کے نام پر رکھے تھے انہوں نے اسلامی تاریخ، سرسید احمد خاں اور حفیظ جالندھری پر بھی کتابیں لکھی تھیں بعدازاں پروفیسر جمیل یوسف سی ایس ایس کرکے ملٹری لینڈز اینڈکنٹونمنٹس سروس میں افسر ہوگئے تھے جہاں سے وہ اکتوبر 1991ء میں ریٹائر ہوئے تھے ان کی آپ بیتی ”زندگی کی رہگزر پر“کتابی صورت میں چھپنے سے پہلے ماہنامہ الحمراء لاہور میں قسط وارشائع ہوتی رہی تھی۔
پریس کلب میں ہماری رات گئے عمران بابر جمیل کے ساتھ محفل رہنے لگی ایک روز بتانے لگے منیر نیازی بھی دیگر معروف ادیبوں،شاعروں کی طرح ان کے والد سے ملنے آتے رہے تھے جس کی وجہ سے ان کا منیر نیازی سے خصوصی تعلق بن گیا۔ لاہور میں تعیناتی کے دوران وہ ٹاؤن شپ میں منیر نیازی کی رہائش گاہ پر بھی جاتے رہے ایک مرتبہ وہ دونوں اکٹھے داتا دربار گئے تو منیر نیازی نے وہاں دعا مانگی تھی کہ یا اللہ میرے اورسیدعلی ہجویری کے گناہ معاف فرما دے،منیر نیازی انہیں نیوی کے مشاعرے میں بھی اپنے ساتھ کراچی لے گئے تھے جہاں سٹیج پر منیر نیازی نے انکشاف کیا کہ وہ مفرور سیلر ہیں اور نیوی کی ملازمت چھوڑ کرگھر بھاگ گئے تھے انہوں نے مطالبہ کیا تھاکہ ان کی مفروری کے احکامات واپس لئے جائیں !“
عمران بابر جمیل کے ساتھ پریس کلب میں آخری نشست کے دوران جب ایک دوست نے ان کی ازدواجی زندگی کے حوالے سے دریافت کیا توعمران بابر جمیل نے بتایا کہ جب انہیں ڈی ایس پی کے عہدے سے برطرف کرکے مقدمات میں الجھایا گیا تو محبت کی شادی کرنے والی اہلیہ نے خلع لے لی تھی اب انہیں بیٹے سے بھی ملنے نہیں دیا جاتا کوئی مجھے میرے بیٹے سے ملوادے!“ یہ کہہ کر وہ ہچکیوں کے ساتھ رونے لگے ہمارا دل بھی بھر آیا دن چڑھ آیا تھاہم انہیں ساتھ لے کر پریس کلب سے باہر آگئے اور شملہ پہاڑی چوک سے رکشہ میں سوار کرکے انہیں داتا دربار روانہ کردیا جہاں وہ عرصہ دراز سے روزانہ حاضری دیتے چلے آرہے تھے دو روزبعدچیئرنگ کراس چوک میں صحافیوں کا احتجاج تھا ہم قدرے تاخیر سے وہاں پہنچے اور احتجاج ختم ہونے پر سینئر صحافی ازھر منیر ہمیں اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوگئے رات گئے سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلاکہ سابق ڈی ایس پی عمران بابر جمیل کو تھانہ سول لائنز پولیس مال روڈ پر ٹریفک میں خلل ڈالنے کے الزام میں گرفتار کرکے لے گئی تھی۔
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭