اعجاز الحق
جنرل ضیاء الحق کے بہت سے رفقاء اس بات سے اتفاق کرتے ہیں بلکہ جنرل محمد شریف کی گواہی ہے کہ بھٹو صاحب نے ان اقدامات کا اعلان جنرل ضیاء الحق کے مشورے پر کیا تا کہ تحریک کا زور ٹوٹ سکے۔ جنرل ضیاء الحق کا حکومت کے لیے یہ مشورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملک میں حکومت کے ساتھ تھے اور چاہتے تھے کہ حالات درست ہو جائیں اور اس کے لیے حکومت کو موقع بھی دے رہے تھے، مگر پیپلز پارٹی کی غیر مقبولیت اور عوام میں اس کے بارے میں غصہ بہت زیادہ بڑھ چکا تھااس غصہ کا جواز خود حکومت کے وزراء کی کارکردگی نے فراہم کیا تھا۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک دراصل اب بھٹو مخالف تحریک بن چکی تھی۔
20 اپریل کو حکومت نے خود ایک فیصلہ کیا کہ ملک کے اہم شہروں میں مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم دیا۔ حکومت سے کہا گیا کہ ایسانہ کیا جائے کیونکہ یہ پھر آگے ہی بڑھے گا واپس نہیں آئے گابہر حال حکومت نے لاہور،کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لاء نافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور چیئرمین JCSCجنرل محمد شریف کو اس کی ہدایت کر دی گئی وزیر اعظم نے ا ٹارنی جنرل کو فرمان ڈرافٹ کرنے کی ہدایت کی تا کہ صدر فضل الٰہی چوہدری سے اس پر دستخط کروا لیے جائیں اس کے باوجود وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کہا گیا کہ وہ ایسا نہ کریں اس سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جواب دیا تو کیا پھر پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا جائے۔ جب مارشل لاء نافذ ہوا تو تین بریگیڈئر اشتیاق احمد خان،نیاز احمد اور محمد اشرف نے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت نے اپوزیشن سے دوبارہ مذاکرات شروع کر دیئے جو کہ بد نیتی پر مبنی تھے۔ بھٹو صاحب کی غیر سنجید گی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک جل رہا تھا وہ مذاکرات چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ اپوزیشن کو مذاکرات میں الجھائے رکھو ایک دن آئے گا کہ اپوزیشن تھک جائے گی اور تحریک دم توڑ دے گی لیکن وہ یہ بات بھول گئے تھے کہ تحریک اپوزیشن کے ہاتھوں سے نکل کر عوام کے ہاتھوں میں جا چکی تھی۔ملک کے گلی کوچوں میں حکومت کے خلاف سخت احتجاج ہو رہا تھا۔لوگ جیل جانے سے بہت ڈرتے ہیں لیکن یہ ایسی تحریک بن چکی تھی کہ ملک کی اکثر مساجد سے روزانہ لوگ خود گرفتاریاں پیش کر تے تھے۔یہاں تک کے ملک کے جیل خانوں میں جگہ ختم ہو چکی تھی۔پولیس شہریوں کو گرفتار کر کے شہر سے باہر جنگلوں میں چھوڑ دیتی تھی،ملک کا نظام دھرم بھرم ہو چکا تھا۔ان حالات سے نمٹنے کے لیے جنرل ضیا ء الحق نے اپنے رفقاء کار سے مشاورت کی اور متفقہ طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا جائے اور 5 جولائی 1977ء کو اس پر عمل ہو گیا۔بھٹو حکومت ختم کر دی گئی اور ملک میں از سر نو انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔اس مارشل لاء کو تمام مکتبہ فکر نے خوش آمدید کہا یہاں تک کہ اْس وقت کے صدر جناب فضل الٰہی چوہدری نے بھی اطمینان کا سانس لیا اور مارشل لاء حکومت کے ساتھ کام جاری رکھا نہ صرف کام جاری رکھا بلکہ متعدد مشورے بھی دیئے۔یہاں تک کہ اْس وقت کے چیف جسٹس یعقوب علی نے بھی تائید کی اور مشورہ دیا کہ آئین کو ختم نہ کیاجائے بلکہ معطل کر دیا جائے۔قومی پریس میں بھی مارشل لاء کے نفاذ کے فیصلے پر مختلف تبصرے ہوئے، ایک اخبار نے لکھا کہ گہری کھائی پر پل۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار کے اداریے کا عنوان یہ تھا ”مصالحانہ وقفہ“۔ ایک ہفت روزہ نے لکھا کہ ”اللہ تعالیٰ نے کروڑوں بے بس انسانوں کی دعا قبول کر لی“۔
پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمود نے پیغام جاری کیا کہ ”ملک کے افق پر مصیبتوں اور ابتلاؤں کے بادل چھٹ گئے“۔ اصغر خان نے بی بی سی پربیان دیا کہ جنرل ضیاء الحق نے فوجی مداخلت کر کے ایک بر وقت اقدام کیا اور ملک کو آنے والی تباہی سے بچا لیا۔ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے خیالات اور آراء کو مخلصانہ اور با معنی قراردیا۔بیگم نسیم ولی خان نے اسے امید کی کرن قراردیا۔ عالمی اخبارات نے بھی اداریے لکھے۔ڈیلی ٹیلی گراف نے لکھا کہ بھٹو کو خود اس واقعہ کا الزام قبول کر نا چاہیے تھا۔ ملک میں الیکشن کی تیاریاں شروع ہو گئیں نہ جانے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو کیا ہوا کہ اْنہوں نے اچانک نعرہ لگایا ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ اور الیکشن ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔اس کالم میں گنجائش نہیں کہ بعد کے حالات کی تفصیل میں جایا جا سکے کہ انشاء اللہ بقیہ کسی آئندہ کالم میں پیش کروں گا۔
سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم آج اپنے سیاسی حالات کا بھی جائزہ لیں،حکومت اور اپوزیشن مل کر اس پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں آج بھی ماضی جیسے حالات ہیں حکومت اور اپوزیشن با ہم مل بیٹھ کر پارلیمانی آداب کے اندر رہ کر کام کرنے سے عاری دکھائی دے رہی ہے۔ابھی بجٹ سیشن میں پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران مکمل انتشار دیکھنے کو ملا ہے۔ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم حکمت کے ساتھ کام کریں اپنے ہمسائیہ ممالک کے حالات پر نظر رکھیں او رسوچیں کہ ہم پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ہمیں کیسے نمٹنا ہے،تب کہیں جا کر ہم ملک میں ایک مضبوط اسلامی جمہوری نظام لاسکتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ یوں ہی جاری رہاتو حالات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔ اللہ پاک پاکستان کا حامی و ناصر ہو، آمین۔
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)
٭……٭……٭اعجاز الحق
جنرل ضیاء الحق کے بہت سے رفقاء اس بات سے اتفاق کرتے ہیں بلکہ جنرل محمد شریف کی گواہی ہے کہ بھٹو صاحب نے ان اقدامات کا اعلان جنرل ضیاء الحق کے مشورے پر کیا تا کہ تحریک کا زور ٹوٹ سکے۔ جنرل ضیاء الحق کا حکومت کے لیے یہ مشورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملک میں حکومت کے ساتھ تھے اور چاہتے تھے کہ حالات درست ہو جائیں اور اس کے لیے حکومت کو موقع بھی دے رہے تھے، مگر پیپلز پارٹی کی غیر مقبولیت اور عوام میں اس کے بارے میں غصہ بہت زیادہ بڑھ چکا تھااس غصہ کا جواز خود حکومت کے وزراء کی کارکردگی نے فراہم کیا تھا۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک دراصل اب بھٹو مخالف تحریک بن چکی تھی۔
20 اپریل کو حکومت نے خود ایک فیصلہ کیا کہ ملک کے اہم شہروں میں مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم دیا۔ حکومت سے کہا گیا کہ ایسانہ کیا جائے کیونکہ یہ پھر آگے ہی بڑھے گا واپس نہیں آئے گابہر حال حکومت نے لاہور،کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لاء نافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور چیئرمین JCSCجنرل محمد شریف کو اس کی ہدایت کر دی گئی وزیر اعظم نے ا ٹارنی جنرل کو فرمان ڈرافٹ کرنے کی ہدایت کی تا کہ صدر فضل الٰہی چوہدری سے اس پر دستخط کروا لیے جائیں اس کے باوجود وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کہا گیا کہ وہ ایسا نہ کریں اس سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جواب دیا تو کیا پھر پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا جائے۔ جب مارشل لاء نافذ ہوا تو تین بریگیڈئر اشتیاق احمد خان،نیاز احمد اور محمد اشرف نے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت نے اپوزیشن سے دوبارہ مذاکرات شروع کر دیئے جو کہ بد نیتی پر مبنی تھے۔ بھٹو صاحب کی غیر سنجید گی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک جل رہا تھا وہ مذاکرات چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ اپوزیشن کو مذاکرات میں الجھائے رکھو ایک دن آئے گا کہ اپوزیشن تھک جائے گی اور تحریک دم توڑ دے گی لیکن وہ یہ بات بھول گئے تھے کہ تحریک اپوزیشن کے ہاتھوں سے نکل کر عوام کے ہاتھوں میں جا چکی تھی۔ملک کے گلی کوچوں میں حکومت کے خلاف سخت احتجاج ہو رہا تھا۔لوگ جیل جانے سے بہت ڈرتے ہیں لیکن یہ ایسی تحریک بن چکی تھی کہ ملک کی اکثر مساجد سے روزانہ لوگ خود گرفتاریاں پیش کر تے تھے۔یہاں تک کے ملک کے جیل خانوں میں جگہ ختم ہو چکی تھی۔پولیس شہریوں کو گرفتار کر کے شہر سے باہر جنگلوں میں چھوڑ دیتی تھی،ملک کا نظام دھرم بھرم ہو چکا تھا۔ان حالات سے نمٹنے کے لیے جنرل ضیا ء الحق نے اپنے رفقاء کار سے مشاورت کی اور متفقہ طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا جائے اور 5 جولائی 1977ء کو اس پر عمل ہو گیا۔بھٹو حکومت ختم کر دی گئی اور ملک میں از سر نو انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔اس مارشل لاء کو تمام مکتبہ فکر نے خوش آمدید کہا یہاں تک کہ اْس وقت کے صدر جناب فضل الٰہی چوہدری نے بھی اطمینان کا سانس لیا اور مارشل لاء حکومت کے ساتھ کام جاری رکھا نہ صرف کام جاری رکھا بلکہ متعدد مشورے بھی دیئے۔یہاں تک کہ اْس وقت کے چیف جسٹس یعقوب علی نے بھی تائید کی اور مشورہ دیا کہ آئین کو ختم نہ کیاجائے بلکہ معطل کر دیا جائے۔قومی پریس میں بھی مارشل لاء کے نفاذ کے فیصلے پر مختلف تبصرے ہوئے، ایک اخبار نے لکھا کہ گہری کھائی پر پل۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار کے اداریے کا عنوان یہ تھا ”مصالحانہ وقفہ“۔ ایک ہفت روزہ نے لکھا کہ ”اللہ تعالیٰ نے کروڑوں بے بس انسانوں کی دعا قبول کر لی“۔
پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمود نے پیغام جاری کیا کہ ”ملک کے افق پر مصیبتوں اور ابتلاؤں کے بادل چھٹ گئے“۔ اصغر خان نے بی بی سی پربیان دیا کہ جنرل ضیاء الحق نے فوجی مداخلت کر کے ایک بر وقت اقدام کیا اور ملک کو آنے والی تباہی سے بچا لیا۔ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے خیالات اور آراء کو مخلصانہ اور با معنی قراردیا۔بیگم نسیم ولی خان نے اسے امید کی کرن قراردیا۔ عالمی اخبارات نے بھی اداریے لکھے۔ڈیلی ٹیلی گراف نے لکھا کہ بھٹو کو خود اس واقعہ کا الزام قبول کر نا چاہیے تھا۔ ملک میں الیکشن کی تیاریاں شروع ہو گئیں نہ جانے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو کیا ہوا کہ اْنہوں نے اچانک نعرہ لگایا ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ اور الیکشن ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔اس کالم میں گنجائش نہیں کہ بعد کے حالات کی تفصیل میں جایا جا سکے کہ انشاء اللہ بقیہ کسی آئندہ کالم میں پیش کروں گا۔
سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم آج اپنے سیاسی حالات کا بھی جائزہ لیں،حکومت اور اپوزیشن مل کر اس پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں آج بھی ماضی جیسے حالات ہیں حکومت اور اپوزیشن با ہم مل بیٹھ کر پارلیمانی آداب کے اندر رہ کر کام کرنے سے عاری دکھائی دے رہی ہے۔ابھی بجٹ سیشن میں پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران مکمل انتشار دیکھنے کو ملا ہے۔ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم حکمت کے ساتھ کام کریں اپنے ہمسائیہ ممالک کے حالات پر نظر رکھیں او رسوچیں کہ ہم پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ہمیں کیسے نمٹنا ہے،تب کہیں جا کر ہم ملک میں ایک مضبوط اسلامی جمہوری نظام لاسکتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ یوں ہی جاری رہاتو حالات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔ اللہ پاک پاکستان کا حامی و ناصر ہو، آمین۔
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)
٭……٭……٭