تازہ تر ین

ہمارے حصے میں عذر آئے،جواز آئے،اصول آئے

ضیا بلوچ
سرائیکی وسیب کے حصے میں عجب ترقی ئ معکوس آئی ہے کہ سالوں سفر کے بعد اچانک پتہ چلتا ہے جہاں کھڑے تھے اس سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔ اس بدقسمت خطے کیلئے دئیے گئے ترقیاتی منصوبے بھی عذاب ِ جاں ثابت ہوتے ہیں جو اس مٹی میں پہلے سے موجود گلشن کو بھی اجاڑ ڈالتے ہیں۔ ملتان کیلئے خواتین یونیورسٹی جیسا اچھا منصوبہ اس انداز میں دیا گیا کہ شاندار تاریخ رکھنے والے گورنمنٹ کالج برائے خواتین کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فیسیں 5 ہزار سے 50 ہزار روپے تک بڑھ گئیں اور جہاں 50 ہزار طالبات تعلیم حاصل کر رہی تھیں ان کی تعداد 5 ہزار سے بھی کم رہ گئی… بقول افتخار ساگر
اس نے ہمارے زخم کا کچھ یوں کیا علاج
مرہم بھی گر لگایا تو کانٹوں کی نوک سے
ملتان ہی کو ایک اور یونیورسٹی کا تحفہ اس روپ میں ملا کہ مدینۃ الاولیاء کی صدیوں پرانی تاریخ کے حامل گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کا ”خون“ کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ ہزاروں طلبہ اور اساتذہ ابھی تک سڑکوں پر ایڑیاں رگڑتے لاہور میں بیٹھے ارباب اختیار سے کہ رہے ہیں۔
اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
(سجاد حیدر یلدرم)
اور اب جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے نام پر بہاولپور کی قدیمی درسگاہ اسلامیہ یونیورسٹی کے شاندار عباسیہ کیمپس کو اجاڑنے کا پروگرام بنا لیا گیا ہے۔ حکم دیا گیا ہے کہ 7 یوم میں یہ عمارت خالی کرا لی جائے کہ یہاں سیکرٹریٹ بنے گا…… یہ کیسے فیصلے ہو رہے ہیں اے اہل اختیار سوچیں تو سہی!آپ نے لاہور میں ایک نئی یادگار تعمیر کرنی ہو تو آپ چاہیں گے کہ مینارِ پاکستان کو گرا دیا جائے۔ آپ نے دنیا کی سب سے بڑی مسجد لاہور میں بنانی ہو تو آپ فیصلہ کرو گے کہ بادشاہی مسجد کو گرا کہ یہاں یہ عظیم منصوبہ بنا دیں۔ آپ نے بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع کرنا ہے اور آپ کے پاس جگہ ہے نہ رقم تو کیا آپ یہ چاہیں گے کہ لاہور کے شاہی قلعہ میں یہ نیا پروجیکٹ شروع کر دیا جائے۔ اگر آپ لاہور کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے تو اس جنوبی خطے کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟ آپ نئے ترقیاتی منصوبے ضرور دیں کہ یہ خطہ مسلسل محرومیوں کا شکار چلا آ رہا ہے لیکن ضرورت مند کی مدد کایہ طریقہ کار نہیں ہوتا کہ دس روپے امداد کے بدلے میں اس کے کپڑے ہی اتروا لیں۔
عباسیہ کیمپس میں سیکرٹریٹ کے قیام کے ”تحفے“ کو فی الحال تو گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ”ٹال“ دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا فیصلہ ابھی نہیں ہوا جو کچھ بھی ہو گا سینڈیکیٹ اجلاس میں ہو گا لیکن کیا خبر سینڈیکیٹ اجلاس میں یہ فیصلہ کہیں ہو ہی نہ جائے۔
اس ساری صورتحال کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ پہلے پنجاب پر حکمرانی کرنے والے اہل لاہور تھے جنہیں شائد اس خطے کے مسائل کا ادراک ہی نہیں تھا لیکن اب تو وزیراعظم عمران خان نے اس محرومیوں کے شکار خطے کی پسماندہ ترین تحصیل ٹرائبل ایریا کے ایک سپوت سردار عثمان خان بزدار کو وزیراعلیٰ بنایا ہے۔ اب تو ایسا ہونا نہیں چاہیے لیکن آخر وسیب کے تعلیمی اداروں سے مسلسل ایسا کھلواڑ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا محرومیاں ہی اس خطے کا مقدر رہیں گی۔ بقول اعزاز احمد آذر
درختِ جاں پہ عذاب رُت تھی،نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جتنے پنچھی، ادھر کو آئے ملول آئے
وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں،اٹھا کے جھولی میں اپنے رکھ لیں
ہمارے حصے میں عذر آئے،جواز آئے، اصول آئے
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain