بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن اراکین کی درخواست پر کوئٹہ کے ایڈیشنل سیشن جج نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور سابقہ ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ کے خلاف مقدمہ درج کر نے کا حکم دے دیا۔
ہفتہ کو ایڈیشنل سیشن جج کوئٹہ نے اراکین صوبائی اسمبلی اختر حسین لانگو، ثنااللہ بلوچ (بی این پی ۔ مینگل) اور عبدالواحد صدیقی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان، ایس ایس پی کے خلاف مقدمے کیلئے عدالت میں درخواست
عدالت نے کرمنل پراسیجر کوڈ کی دفعہ 22-اے کے تحت دائر کی گئی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے پولیس کو وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور سابق ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ احمد محی الدین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کر دی۔
واضح رہے کہ 18جون کو بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقع پر ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس کی جانب سے بکتر بند گاڑی کے ذریعے بلوچستان اسمبلی کے دروازے کو توڑا گیا تھا جس کے نتیجے میں رکن صوبائی اسمبلی عبدالواحد صدیقی زخمی بھی ہوئے تھے۔
اراکین صوبائی اسمبلی اختر حسین لانگو، ثنااللہ بلوچ (بی این پی ۔ مینگل) اور عبدالواحد صدیقی (جے یو آئی ۔ ف) نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: اپوزیشن لیڈر، 9 اراکین اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج
انہوں نے درخواست میں الزام عائد کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ اور ایس ایس پی نے اپوزیشن اراکین اسمبلی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور 18 جون کو کشیدگی میں 3 اراکین اسمبلی زخمی ہوئے لہٰذا وزیر اعلیٰ اور ایس ایس پی کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں نے 18 جون کو صوبائی اسمبلی کے احاطے میں پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ جام کمال اور ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ احمد محی الدین کے خلاف مقدمے کے لیے مقامی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ پولیس کو وزیر اعلیٰ اور ایس ایس پی آپریشنز کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے۔
قبل ازیں اپوزیشن نے بجلی روڈ تھانے میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی لیکن پولیس نے اپوزیشن جماعتوں کے مطالبات پر ایف آئی آر درج نہیں کی تھی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان اسمبلی کے باہر ہنگامہ، اپوزیشن اراکین گرفتاری دینے تھانے پہنچ گئے
اس کے برعکس حکومت کی شکایت پر بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان سمیت اپوزیشن کے 17 اراکین اسمبلی اور اپوزیشن کے 200 سے زائد کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا۔
اپوزیشن کے اراکین نے بجلی روڈ تھانے پہنچ کر گرفتاری کی پیشکش کی تھی تاہم پولیس نے یہ کہہ کر انہیں گرفتار کرنے سے انکار کردیا تھا کہ الزامات کی تحقیقات اور ثبوتوں کے بغیر وہ کوئی گرفتاری نہیں کر سکتے۔