تازہ تر ین

ن لیگ کے لئے آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے

ملک منظور احمد
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا بیانیہ احتساب ہے اور اسی احتساب کے بیانیہ نے بڑے بڑے سیاسی اکابرین کے دن کا چین اور رات کی نیند غارت کر رکھی ہے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی اسی احتسابی عمل کا شکار ہو ئے اور پھر بیماری کے بہانے طبی بنیادوں پر علاج کی غرض سے سیدھے جیل سے لندن پہنچ گئے۔حکومت نے ان کو واپس لانے کے لیے بہت سارے دعوے کیے،کہا گیا کہ حکومت برطانیہ سے نواز شریف کی واپسی کے لیے بات چیت جاری ہے لیکن حکومت کی اس سلسلے میں کسی کاوش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔کچھ عرصے سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ حکومت سابق وزیر اعظم کو پاکستان واپس لانے کے حوالے سے ہمت ہار بیٹھی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے بھی یہ بیان سامنے آیا کہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور متحدہ قومی موومنٹ کے سابق قائد الطاف حسین کو لندن سے واپس پاکستان لانے سے یکسر قاصر ہوں۔لیکن پھر برطانیہ سے اچانک ایسی خبر سامنے آئی کہ پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچ گئی حکومتی وزراء خوشیاں منانے لگے اور کرونا وائرس کا شکار مریم نواز جو کہ قرنطینہ میں ہیں وہ بھی ٹوئٹر پر بولنے پر مجبور ہوگئیں۔حکومتی وزراء نے ایسے جشن منایا کہ جیسے کہ نواز شریف کی برطانوی ویزے میں توسیع کی درخواست انھوں نے ہی مسترد کروائی ہو۔لیکن ابھی یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اور اس معاملے میں کافی عرصہ درکار ہے،نواز شریف فیصلے کے خلاف اپیل میں چلے گئے ہیں اور اپیل کا فیصلہ ہونے میں 1سال سے زائد کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کے پاس برطانیہ کا 10سالہ ملٹپل انٹری ویزا موجود ہے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ برطانیہ میں وزٹ ویزا پر موجود ہیں اور وزٹ ویزا کی شرائط کے مطابق ان کو ایک گھنٹے کے لیے سہی برطانیہ سے باہر جانے کی ضرورت ہے اسی صورت میں یہ ویزا ویلڈ رہ سکتا ہے۔نواز شریف کے لیے اس سلسلے میں رکاوٹ یہ ہے کہ حکومت پاکستان ان کا پاسپورٹ رواں سال فروری کے مہینے میں منسوخ کر چکی ہے اور اب ان کے پاس برطانیہ چھوڑنے کیلئے کو ئی سفری دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ان کو پاسپورٹ کی بحالی کے لیے حکومت پاکستان سے رابطہ کرنا پڑے گا اور یقینا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ان کے ساتھ کو ئی تعاون کرنے کو تیار نہیں ہو گی،اور حکومت اگر چاہے بھی تو تعاون نہیں کر سکتی کیونکہ بہر حال پاکستان کی عدالتیں بھی نواز شریف کو مفرور قرار دے چکی ہیں۔اس سلسلے میں یہ پوا ئنٹ موجود ہے اور اس کو نواز شریف برطانیہ میں اپنی اپیل کے دوران بھی استعمال کر سکتے ہیں کہ کیا کسی حکومت کو کسی جرم کی بنیاد پر کسی بھی شہری کا پاسپورٹ یا شہریت منسوخ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ اور اس سلسلے میں نواز شریف برطانوی عدالت میں یہ موقف بھی اپنا سکتے ہیں کہ میں تین مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم رہا ہوں او ر پاکستان واپسی پر میری جان کو بھی خطرہ ہے اور حکومت پاکستان نے انتقام کی غرض سے میرا پاسپورٹ منسوخ کیا ہے لہذا برطانیہ میں مجھے مزید رہنے کی اجازت دی جائے،اور برطانیہ کی جانب سے اس موقف پر غور بھی کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس سلسلے میں کیا فیصلہ ہو گا اور اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان واپس نہ آنے اور مسلسل برطانیہ میں رہنے کی ضد نے ان کو پاکستان میں سیاسی طور پر کمزور پوزیشن میں ضرور لا کھڑا کیا ہے،پاکستان میں اگرچہ مریم نواز شریف اور شہباز شریف کی صورت میں ن لیگ کی مرکزی قیادت موجود ہے لیکن نواز شریف لندن میں بیٹھ کر بھی تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے اندر مسلم لیگ ن کے سیاسی حالات دن بدن خراب ہو تے جا رہے ہیں اور ن لیگ کے اندر بیانیہ کی جنگ زور پکٹرتی جا رہی ہے،مریم نواز اور شہباز شریف کا نہ صرف بیانیہ یکسر مختلف ہے بلکہ ان کے گروپس بھی جماعت کے اندر واضح طور پر الگ نظر آرہے ہیں۔حالیہ آزاد کشمیر انتخابات میں انتخابی مہم مریم نواز شریف کے ہاتھ میں تھی اور شہباز شریف کہیں دور دور تک انتخابی مہم میں نظر نہ آئے یہاں پر سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا شہباز شریف نے مریم نواز کو کھل کر ناکام ہو نے کا موقع دیا تاکہ پارٹی کے اندر ان کی پوزیشن مضبوط ہو۔سابق وزیر اعظم شاہد خا قان عباسی کھل کر شہباز شریف کے خلا ف بیان بازی کر رہے ہیں جو کہ ن لیگ کے اندرونی معاملات خراب ہو نے کی سنگینی ظاہر کرتا ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان واپس آنے پر غور کرنا چاہیے کچھ عرصہ کے لیے شاید ان کو جیل جانا پڑے لیکن بہر حال اسی صورت میں وہ عدالت سے ریلیف لے کر ضمانت پر رہا بھی ہو سکتے ہیں۔غیر معینہ مدت کے لیے ملک سے باہر رہنے سے نہ صرف ان کی سیاست کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے بلکہ پارٹی کے اندر کی گروپ بنددیوں سے پارٹی کو بھی بڑا دھچکا لگ سکتا ہے اور اگر 2023ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ہار جاتی ہے اور سونے پر سہاگہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ان کی پاکستان واپسی کا راستہ مستقل طور پر بھی بند ہو سکتا ہے،نواز شریف کو اپنی پارٹی کے مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی زات سے بالا تر ہو کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔میں یہاں گزشتہ دونوں میں رحیم یا ر خان میں مندر کی بے حرمتی اور اس کو جلائے جانے کے واقعے پر بھی کچھ بات کرنا چاہوں گا۔یہ نہایت ہی قابل افسوس واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے،حکومت پاکستان کا اس واقعے کے بعد ردعمل حوصلہ افزا ء ہے اور چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے بھی اس واقعے کا از خود نوٹس لیا ہے،جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن یہ واقعہ پیش کیسے آیا اس کی تحقیقات ہونا لازم ہیں،اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کو ئی ایسا واقعہ کرنے کی جرأت نہ کرے۔پاکستان اور ہندوستان کی ہندتوا پالیسی میں فرق ہے اور یہ فرق واضح طور پر نظر بھی آنا چاہیے۔پاکستان ایک اسلامی فلاحی ملک ہے جہاں ہر تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور اقلیتیں اپنی عبادت گاہوں میں عبادات کرنے میں آزاد ہیں یہی قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان تھا اور یہی اصول پاکستان کے آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔قائد اعظم کے اس فرمان پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain