خضر کلاسرا
شکر ہے، وزیراعلی پنجاب اس وقت فائرنگ میں محفوظ رہے،جب ان کو کھوکھر برادران نامزد صوبائی وزیراسد کھوکھر کے بیٹے کے ولیمہ کے بعد ان کو رخصت کررہے تھے اور تاک میں بیٹھے مسلح سزایافتہ شخص نے اس وقت پنجاب پولیس سمیت سیکورٹی اداروں کے انتظامات کاپول کھول دیا، جب اس نے فائر کھول دیا،اور وہ اتنا قریب آچکاتھا کہ کھوکھربرادران میں سے ایک بھائی گولیوں کا نشانہ بن کر موقع پر ہی زندگی کی بازی ہارگیا۔ اس کریمنل مائنڈ شخص سے کسی بھی بڑی واردات کی توقع کی جاسکتی تھی؟ یہ تو شکرہے کہ قدرت کو کچھ اور منظور تھا یوں نامزد صوبائی وزیر اسد کھوکھر اور ان کا دوسرا بھائی اور بالخصوص وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اس فائرنگ کرتے ہوئے شخص کے حملہ میں محفوظ رہے۔تھوڑی دیر کیلئے اپنے آپ اس منظر میں لے جائیں، جب ایک مسلح شخص فائرنگ کرتا اور للکارتا ہوا۔اپنے مذموم مقصد کے حصول کیلئے بڑھا ہوگا اوروزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سمیت کھوکھربردران کسی بھی ناگہانی صورتحال کیلئے ذرا برابر بھی تیار نہیں تھے۔ مسلح شخص کی گولیوں کی بوچھاڑ ایک ایسے سانحہ کو جنم دے سکتی تھی جس کا ازالہ کسی طورپر بھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔میں ایک بار پھر کہوں گاکہ یہ قدرت کا پاکستان بالخصوص پنجاب پر کرم ہوا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس سانحہ میں محفوظ رہے۔ ادھر نامزد صوبائی وزیراسد کھوکھر اور ان کے ایک بھائی قاتل کے وار سے بچ گئے۔دوسری طرف کھوکھر برادران کیلئے ایک بھائی کا خوشیوں میں بالخصوص ولیمہ کی تقریب میں یوں مارا جانا یقینا انتہائی تکلیف کا سبب ہے۔ پروردگار کھوکھر برادران کو حوصلہ دے اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
ادھر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی موجودگی میں ایک کریمنل کے ہاتھوں مارے جانیوالے کھوکھر بردران کے بھائی میزبان کی لاش گرنا بھی انتہائی تکلیف دہ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار پر بھی واقعہ کے تلخ اثرات پڑے ہونگے۔لیکن سوال یہاں پر یہی ابھرتاہے کہ آخر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سمیت اعلیٰ شخصیات کی موجودگی میں ایک مسلح شخص کو اتنی آزادی کیسے ملی کہ وہ وزیراعلیٰ کے سیکورٹی کے حصار کو توڑ کر اتنا قریب چلا گیا کہ اس نے فائر کھول دیا اور قتل کی سنگین واردات کرلی اور ابھی اس بارے میں بھی چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ وہ کوئی بڑی واردات کیلئے ولیمہ میں مہمان بن کرآیا تھا؟ ا س سے زیادہ میں کیا عرض کروں؟ حالات وواقعات بھی اس بات کی چغلی کھارہے ہیں کہ قاتل صرف کھوکھر برادران تک کارروائی محدود رکھنے کا متمنی نہیں تھا لیکن پروردگار کا کرم ہوگیا وگرنہ کیا تلخ اور افسوس ناک صورتحال ہوتی،اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
یہاں اس بات پر بھی بحث ہورہی ہے کہ آخر ایک کریمنل بیک گراونڈ کے حامل شخص کویوں ولیمہ کے پنڈال میں داخل ہونے اورپھر اپنے مذموم مقصد کو حاصل کرنے کیلئے آخرکہیں سے تو سہولت کاری ملی ہے؟ کو ئی کاریگر تو اس کی پشت پر ہوگا؟ ادھر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وزیراعلی سردار عثمان بزدار کی سیکورٹی بلیو بک کے مطابق نہیں تھی، جوکہ اب کرنے کا فیصلہ گیا ہے؟ یہ بھی بہت سارے سوالات کو جنم دیتاہے کہ آخر پنجاب کے وزیراعلیٰ کو یوں ان حالات میں بلیوبک کی سیکورٹی کے بغیر لے کر جایاجاتارہاہے؟ مان لیا وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار عاجزی اور انکساری سے کام لیتے ہیں لیکن ان کی سیکورٹی کو یقینی بنانا سیکورٹی اداروں کی پہلی اور آخری ذمہ داری بنتی ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اس بات پر مطمئن کیا جارہاہے کہ کھوکھر برادران کے ولیمہ میں وہ ہد ف نہیں تھے تو زیادتی ہے؟ اس لیے تحقیقات کو تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر کیاجائے، بصورت دیگر قاتل کے سہولت کار باآسانی بچ جائینگے جوکہ اگلے خطرے کو جنم دیں گے۔جس کی متحمل یہ قوم نہیں ہوسکتی ہے۔
اورایک تکلیف دہ واقعہ مظفرگڑھ میں سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کے بڑے بھائی مشتاق دستی کے قتل کی صورتحال میں ہواہے۔جمشید دستی کے ساتھ بڑے بھائی کی تعزیت بھی کرتاہوں (ساتھ توقع کرتاہوں کہ جمشید دستی کے بھائی کے قاتل کے سہولت کار بھی پولیس ٹریس کرے گی)۔لیکن اس کے ساتھ مظفرگڑھ پر بھی بات کرنا چاہتاہوں۔ مظفرگڑھ پنجاب بالخصوص تھل کا ایک ایسا ضلع ہے جوکہ پسماندگی کی دلدل میں ایک مدت سے کھڑا ہے۔ اس بات کے باوجود کہ مشتاق گورمانی سے لے کر مصطفی کھر اور پھر نوابزادہ نصراللہ خان تک قومی سیاست میں طاقت ور رہے، اور حکمران بھی رہے۔اسی طرح مظفرگڑھ کے عوام نے اقتدار تک جتوئی،قریشی، دستی اور ہنجراسمیت وغیرہ وغیرہ کوبھی پہنچایا لیکن مظفرگڑھ کے لوگوں کی قسمت نہ بدلی تھی اور نہ بدلی ہے۔ مظفرگڑھ تو لاہور چھوڑیں، اپنے اردگرد کے اضلاع ملتان، بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان سے بھی ترقی کے سفر میں کہیں پیچھے دور کھڑا ہے۔مطلب نواب مظفر خان کا مظفرگڑھ لاوارث کے طورپر دن پورے کررہاہے۔ مظفرگڑھ کیلئے تخت لاہور اور اسلام آباد کوئی بڑا پیکج دینے پر تیار نہیں ہے؟ مظفرگڑھ میں خوشحالی صرف ان خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے جوکہ اقتدار میں آجارہے ہیں۔ادھر مظفرگڑھ کے عوام کو اگر پنجاب کے دیگر اضلاع پر فوقیت ہے تو وہ تھانوں کی برسات ہے مطلب آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مظفرگڑھ میں اس وقت 22 پولیس اسٹیشن ہیں۔ادھر قومی اسمبلی کی 6 سیٹیں ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی تعداد بارہ ہے۔اورتحصیلوں کی تعداد پانچ ہوچکی ہے لیکن اس کے ساتھ تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کی محبتوں کا یہ عالم ہے کہ مظفرگڑھ میں قیام پاکستان کو 73سال ہونے کے باوجود ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے (اگر بن گئی ہے تو تاریخ بتادی جائے تاکہ سند رہے)اسی طرح مظفرگڑھ کے پاس ٹیچنگ ہسپتال سے لے کر میڈیکل کالج تک نہیں ہے،وویمن یونیورسٹی نہیں ہے۔سڑکوں کی حالات دیکھیں تو قیامت کا نظارہ ہوجاتاہے۔ مظفرگڑھ کی آبادی کے تناسب سے مظفرگڑھ میں نیا ضلع بنانے کی طرف بھی تخت لاہور کا دھیان نہیں ہے۔ حکومت کی پالیسی اس بات کی چغلی کرتی ہے کہ مظفرگڑھ کی عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح پانچ تحصیلوں میں جینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ تحصیلوں کا اپنے ضلعی ہیڈکوارٹر سے فاصلہ گھنٹوں کا ہے۔ اور بنیادی سہولتیں تک نہیں ہیں۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ مظفرگڑھ میں تھانوں کی تعداد 22 ہونے کی وجہ یقینا جرائم ہونگے۔ اورہمارے خیال میں بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کیلئے صرف تھانے بنانا کافی نہیں ہیں۔ ہرسطح پر اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ لوگ قانون کو ہاتھ میں کیوں لے رہے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟اس بارے میں سوچنا ہوگا؟آخر پر کھوکھر برادران اور جمشید دستی سے جاں بحق ہونے والے بھائیوں کی وفات پر تعزت کرتا ہوں۔ پروردگار سے مرحومین کے درجات کی بلندی کیلئے دعاگو ہوں۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭