خدا یار خان چنڑ
تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے میدان جنگ میں ہمیشہ عددی اکثریت کے بجائے اپنی قوتِ ایمانی پر بھروسہ کیا اور نصرتِ الٰہی سے دشمن کو شکست دی۔نبی کریم ؐکا سنہری دور ہو یا خلفائے راشدین کی فتوحات کا تذکرہ، ہمیں جابجا قوت ایمانی اور نصرتِ الٰہی کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسلام پر ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ اس کے نام لیواؤں پر مکہ کی زمین تنگ کر دی گئی تو آپ نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا، پھر چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ مسلمان مکہ میں فاتح کی حیثیت میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر نبی کریمؐ نے کسی سے بدلہ لینے کے بجائے عام معافی کا اعلان فرما دیااور انتہائی عاجزی وانکساری سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ اسلامی تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جب مسلمانوں نے قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔ حالیہ تاریخ کی تازہ مثال طالبان کی کابل پر فتح ہے۔بے سروسامانی کے عالم میں طالبان نے دنیاکی سپرپاور امریکہ اور اس کے پچاس کے قریب اتحادی ممالک کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور اسلحہ سے لیس طاقتوں کو اپنی قوت ایمانی سے شکست فاش دی۔طالبان نے کابل میں داخل ہوتے ہوئے عام معافی کا بھی اعلان کیا۔ طالبان کی اس فتح نے جہاں قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی وہاں مسلمانوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے تقریبا ًایک سو برس قبل کہا تھا:
افغان باقی، کہسار باقی
الحکم للہ! الملک للہ
یہ وہ دور تھا جب کابل برطانیہ کے اثر سے نکل چکا تھا اور دنیا کی اس وقت کی سپر پاور پہاڑوں سے سر ٹکرانے کے بعد شکست خوردگی کے عالم میں یہ خطہ چھوڑ کر جا چکی تھی۔ افغانیوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے کبھی غیر ملکی تسلط قبول نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ ایرانی ہوں یا یونانی، عرب ہوں یا ترک، انگریز ہوں یا منگول اور حالیہ تاریخ میں روس ہو یا امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک، انہوں نے ہر ایک کیخلاف مزاحمت کی وہ لازوال مثالیں قائم کی ہیں کہ وہ یہاں سے نامراد ہی لوٹے ہیں۔ برطانوی تسلط کے دور میں بھی افغانستان کے بیشتر علاقے درحقیقت آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ میں اپنے قارئین کو تاریخ کی بھول بھلیوں میں الجھانے کے بجائے انہیں حالیہ تاریخ کی ہی دو مثالیں دینا چاہوں گا۔ 1979میں جب اس وقت کی ایک سپرپاور سوویت یونین (روس)نے گرم پانیوں تک رسائی کیلئے افغانستان پر چڑھائی کی تو اس کا خیال تھا کہ وہ ان کو چند گھنٹوں میں مسلتا ہوا اپنے اہداف تک پہنچ جائے گا لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ان خرقہ پوشوں نے لوہے کی زرہیں پہن رکھی ہیں اور ان سے الجھ کر وہ اپنا دامن ہی خون آلود کر لے گا۔ سوویت یونین دس برس تک افغانستان میں برسرپیکار رہا لیکن اسے اپنی تمام تر قوت اور بھاری اسلحہ کے باوجود 1989 میں ناکام و نامراد اس خطہ سے نکلنا پڑا۔ روس کی فوج کا جنرل بورس گروموف وہ آخری اعلیٰ افسر تھا جس نے افغانستان سے نکلتے ہوئے اس ملک سے آخری قدم نکالا تھا۔ میڈیا کے ذریعے قوم کے دل و دماغ پر سوار نام نہاد دانشور یہ تو کہتے ہیں کہ افغانستان میں روس کو شکست دینے میں اصل کردار امریکہ کا تھا لیکن کبھی یہ نہیں بتا پاتے کہ اس جنگ میں کتنے امریکی روس کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے؟ وہ اصل بات اس لئے نہیں بتاتے کہ اس سے ان کے جھوٹ کا پول خودبخود کھل جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب امریکہ نے دیکھ لیا کہ افغان اڑھائی تین سال بعد بھی تن تنہا روس کے خلاف سینہ سپر ہیں اور روس کو روک کر شکست دینے کی اہلیت رکھتے ہیں تو وہ ویتنام میں اپنے خلاف روس کی خفیہ جنگ کا بدلہ لینے کیلئے اپنا اسلحہ لے کر یہاں پہنچ گیا۔ روس کی عبرتناک شکست کا نتیجہ اس کی شکست و ریخت کی شکل میں نکلا تو روس کے شکنجے میں جکڑے وسط ایشیا اور قفقاز کے 6 ممالک آزاد ہوئے اور کمیونزم کا سورج غروب ہوا۔ افغان جہاد کو امریکی جنگ اور امریکی قوت کا نتیجہ قرار دینے والوں کے منہ پر تاریخ نے ایسا تھپڑ رسید کیا کہ آج وہی امریکہ اپنے 48اتحادیوں سمیت شکست کھا کر افغانستان سے نکل چکا ہے لیکن آج کوئی یہ بتانے بلکہ اس کا تذکرہ تک کرنے کو تیار نہیں کہ امریکہ اور اس کے دنیا بھر کے اتحادیوں کو شکست دینے میں آخر طالبان اور افغان مجاہدین کی کس نے مدد کی اور کس نے ان کا ساتھ دیا؟ اس بارپیسہ اور اسلحہ کہاں سے آئے؟ کس نے دیئے؟ عقل والوں کیلئے یہ بہت بڑی نشانی ہے لیکن اگر وہ سمجھنے کیلئے کچھ تیار ہوں تو۔
سوویت یونین کی شکست کے بعد افغانستان میں قبائل کے درمیان لڑائیاں چھڑ گئیں اور دس سالہ طویل جنگ کے بعد بھی وہاں امن وامان کی صورتحال ابتر رہی۔ کون کس کے خلاف برسر پیکار رہا یہ ایک طویل بحث ہے لیکن قصہ مختصر کہ 1994میں تحریک طالبان کے نام سے ایک گروہ سامنے آیا جس نے 1996میں افغانستان کے 95فیصد حصہ پر اپنی حکمرانی قائم کر لی۔طالبان کے دور حکومت میں امن وامان کی صورتحال کافی بہتر ہوئی، انہوں نے شرعی قوانین نافذ کر دیے۔روس کے بعد اب امریکہ اپنے آپ کو دنیا کی واحد سپر پاور سمجھتا تھا اور اسے افغانستان میں ایک اسلامی حکومت کسی طور قبول نہ تھی اور وہ اس کے خلاف پراپیگنڈہ کرتا رہتا ہے۔ طالبان کے دورِ اقتدار کو چند برس ہی گزرے تھے کہ امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہو گیا۔ امریکہ نے اس حملے کا الزام القاعدہ پر عائد کر دیا۔ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ان دنوں افغانستان میں قیام پذیر تھے۔ امریکہ نے طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ طالبان حکومت نے امریکہ سے اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت مانگے لیکن بجائے کوئی ثبوت دینے کے وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔ طالبان نے بغیر کسی ثبوت کے اپنے مہمان کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تو امریکہ نے اپنے اسلحہ کی طاقت کے بل پر افغانستان پر حملہ کر دیااور طالبان حکومت کا خاتمہ کر کے وہاں حامد کرزئی کی صورت میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی۔ طالبان نے شکست تسلیم کرنے کے بجائے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی اس خطہ سے نامراد لوٹ چکا ہے اور کابل پر طالبان قابض ہو چکے ہیں۔
اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیااور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان میں واقع ہے۔اس پورے خطہ میں اپنا دباؤبرقرار رکھنے کیلئے یہ علاقہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کیلئے امن نصیب نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی جغرافیائی سرحد 5529 کلومیٹر لمبی ہے جس میں سب سے زیادہ علاقہ 2640 کلومیٹرپاکستان کے ساتھ لگتا ہے۔ افغانستان کے حالات کا پاکستان پر براہ راست اثرپڑتا ہے۔
افغانستان، پاکستان کا برادر ہمسایہ اسلامی ملک ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس خطہ میں جس تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس نئی صف بندی میں پاکستان اپنے پتے کس طرح کھیلتا ہے؟ قوموں کی زندگی میں صحیح وقت پر کیے گئے صحیح فیصلوں کا بڑامثبت اثر پڑتا ہے لہٰذا ہمیں اپنی خارجہ پالیسی طویل المدت ملکی مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی تشکیل دینا ہو گی۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭