تازہ تر ین

جنوبی پنجاب کا احساس محرومی اور سیکرٹریٹ

ڈاکٹر محمدممتاز مونس
آبروئے صحافت محترم ضیا شاہد محروم ومغفور کی جہاں بے پناہ خدمات ہیں وہاں جنوبی پنجاب کے عوام انہیں اپنا مسیحا ہی نہیں بلکہ پیشوا بھی سمجھتے ہیں۔کیونکہ انہوں نے آج سے تقریباً29سال قبل ”خبریں“ ملتان کی بنیاد رکھ کر سب سے پہلے اس خطے کے عوام کی احساس محرومی کو دیکھتے ہوئے ان کے حقوق کی آواز بلند کی اور وہ واحد آواز ہے جس نے جنوبی پنجاب کی حقوق کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی اور یوں آج پاکستان بھر میں جنوبی پنجاب صوبہ یا جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو تسلیم کیا جانے لگا‘ یہاں تک کہ اقتدار میں آنے کیلئے تقریباً تمام جماعتوں نے جنوبی پنجاب صوبہ کانعرہ لگاکر الیکشن سلوگن بنایا۔ یہ سچ ثابت ہوا کہ پنجاب کا33فیصد بہاول پور‘ ملتان اورڈیرہ غازیخان ڈویژن کو تعلیم‘ صحت‘ ایڈمنسٹریشن سیٹ اَپ اور ملازمتوں سمیت ہر شعبے میں پسماندہ رکھا گیا۔ جنوبی پنجاب صوبے کے روح رواں صوبائی وزیرخزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے تسلیم کیا کہ یہاں 33فیصد کے بجائے کسی شعبے میں 17فیصد اور باقی شعبوں میں اس سے بھی کم اس خطے کے عوام کو حقوق ملتے تھے جو زیادتی ہی نہیں بلکہ حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے عوام نے کبھی ”تخت ِلاہور“ سے آزادی کانعرہ لگایااورکبھی صوبے کو ہی اپنے تمام دکھوں کا مداوا قرار دیا۔ گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب سے سیکرٹریٹ کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم عمران خان‘ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار‘ وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم خسرو بختیار سمیت خطاب کرنے والوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ پہلے اس خطے کے ساتھ ناانصافیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری تھا‘ اب اس خطے کا اپنا پی ایف سی ایوارڈ ہوگا‘ اس خطے کا اپنا نہری نظام‘ اس خطے کا اپنا ہیلتھ سیٹ اَپ‘اس خطے کا اپنا تعلیمی نظام اور سب سے بڑھ کر اس خطے کے باسیوں کو ملازمتوں کا پورا پورا کوٹہ ملے گا۔اب کوئی لاہور سے آکر یہاں ”افسرشاہی“ نہیں کرے گا۔ موجودہ حکومت کی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور اس خطے کے عوام اسے اپنے لئے ہوا کا تازہ جھونکا قرار دیتے ہیں‘لیکن ناقدین اب بھی اسے ”اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف“ قراد دیتے ہیں۔ سیکرٹریٹ اس خطے کے مسائل کی نشاندہی توضرور ہے لیکن محرومیوں‘ ناانصافیوں اور حق تلفیوں کا ازالہ نہیں۔ یوں تو مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی موجودہ حکومت کے اس اقدام پر اعتراض اٹھارہی ہے‘ لیکن صوبہ بنانے کی قانونی شقوں کو پورا کرنے کیلئے دوتہائی اکثریت سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے بعد پنجاب اسمبلی سے پاس کرانے سے گریزاں ہے لیکن ان کی سیاست برائے سیاست کے اس عمل سے اس خطے کے عوام مسلسل پستے جارہے ہیں۔ صوبے کانام سرائیکستان ہو‘ وسیب صوبہ ہو یا جنوبی پنجاب اس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں، یہ لسانی مسئلہ نہیں ہے اگر سندھیوں کا سندھ‘ بلوچیوں کابلوچستان‘ پختونوں کاخیبرپختونخواہ‘ پنجابیوں کاپنجاب صوبہ ہوسکتا ہے تو پھر سرائیکی اکثریت آبادی کے خطے کانام سرائیکستان ہونے سے کون سی حب الوطنی کوخطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس خطے میں سرائیکی‘ پنجابی کا کوئی مسئلہ تھا‘ہے اور نہ ہوگااگر مسئلہ ہے تو حقوق کا ہے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے سیکرٹریٹ بناکر بارش کا پہلا قطرہ برسادیا ہے لیکن یہ اتنی بارش نہیں کہ یہاں کھیت وکھلیان سیراب ہوسکیں۔اس خطے کیلئے صوبہ مسائل کے حل کی واحد امید ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں کب اورکیسے اس خطے کو احساس محرومی سے نکالنے کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں گی۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اس خطے کے عوام اپنے اس اہم ترین مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اور پنجاب کو بھی بڑے بھائی کاحق ادا کرتے ہوئے چھوٹے کو ان کاحق دینا چاہیے‘ یہی قرین انصاف ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بننے کے بعداب اس خطے پرخرچ کیے جانے والے بجٹ کا مکمل حساب کتاب رکھا جائے گا۔گزشتہ سالوں میں جنوبی پنجاب کے اربوں روپے کا فنڈ مکمل طور پر خرچ نہ ہوسکا اورترقیاتی سکیموں کے فنڈز کی تقسیم میں مسلسل ناانصافی ہوتی رہی ہے۔ سابق حکومتیں جنوبی پنجاب کیلئے 635ملین بجٹ جاری کرنے کا نعرہ لگاتی رہیں جبکہ ہماری آبادی 33 فیصد ہے۔اس کی ایلوکیشن نکالی جائے تو یہ بجٹ جنوبی پنجاب کی آبادی کے حساب سے 28% تھا جبکہ فنڈز ترقیاتی کاموں پر 17%خرچ کیا جاتا رہا۔ اسی طرح سابق 7 سالوں میں جنوبی پنجاب کے عوام پر صرف265 ملین روپے ہی خرچ ہوئے۔ جنوبی پنجاب کا مختص کیا جانے والا بجٹ جنوبی پنجاب کی تینوں ڈویژن میں خرچ ہوسکے گا۔
سب سے اہم مسئلہ صحت اورتعلیم کا ہے‘جس میں صحت کے لحاظ سے ہیلتھ انشورنس کاپیکیج لایاگیاہے جس میں جنوبی پنجاب کے ہر شہری کی بلاتفریق انشورنس اور انہیں صحت کارڈ جاری کیا جائے گا‘جس کے ذریعے سرکاری اورنجی ہسپتالوں میں علاج ممکن ہوسکے گا۔رواں سال ہیلتھ انشورنس پر کام شروع ہوچکا ہے۔ ابتدائی طورپر دو ڈویژن ساہیوال اور ڈیرہ غازیخان میں ہیلتھ انشورنس کارڈ کااجراء کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح دوسری اہم ضرورت تعلیم ہے جس میں پنجاب کے 55ہزارسکول اَپ گریڈ کئے جائیں گے۔22ارب روپے کی لاگت سے رواں سال17ہزار پرائمری سکولوں کی اَپ گریڈیشن ہوگی۔جنوبی پنجاب میں گورنمنٹ نمائندگی ڈیمانڈ کے مطابق ہوسکے، ایڈمنسٹریشن میں جنوبی پنجاب کی آبادی کے لحاظ سے33فیصدکوٹہ پبلک سروس کمیشن کے تحت مقرر کیا گیا ہے کیونکہ پنجاب میں 2لاکھ سے زائد سرکاری سیٹیں خالی پڑی ہیں۔ اسی طرح ایڈمنسٹریشن سیٹ اَپ میں محکمہ مال کو اَپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔جنوبی پنجاب کے سیکرٹریٹ ملتان اور بہاول پور میں مقررکئے جارہے ہیں جن کیلئے سرکاری زمین مختص کرلی ہے۔ جس سے جنوبی پنجاب ایڈمنسٹریشن سیٹ اَپ میں پبلک سروس کمیشن کی نمائندگی بھی جنوبی پنجاب سے ہی منتخب کی جائے گی۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain