واشنگٹن: ایسے وقت میں جب امریکا افغانستان سے اپنے شہریوں اور فوجیوں کو بحفاظت نکلانے کی کوششوں میں مصروف ہے ، امریکی پارلیمان کے دو اپوزیشن اراکین غیرقانونی خفیہ دورے پر کابل پہنچ گئے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو اس معاملے سے واقف دو افراد نے بتایا ہے کہ ریپبلکن ارکان سیٹھ مولٹن اور پیٹر میجر نےکابل کا غیرقانونی اور خفیہ دورہ کیا جس پر امریکی محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کے کئی عہدیدار مشتعل ہوگئے ۔
واضح رہے کہ ریپبلکن رکن سیٹھ مولٹن اور پیٹر میجر دونوں سابق فوجی ہیں جنہوں نے عراق جنگ میں بھی حصہ لیا اور وہ صدر جو بائیڈن کی افغانستان پالیسی کے سخت ناقد ہیں۔
کابل سمیت تقریباً پورے افغانستان میں اس وقت طالبان کا کنٹرول ہے اور امریکی فوجی صرف کابل کے ہوائی اڈے پر موجود ہے جب کہ امریکی حکام اپنے شہریوں ، افغان مترجموں اورفوج کے لیے کام کرنے والے ٹھیکیداروں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
اتوار کو امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے خبردار کیا کہ اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے ائیرپورٹ پر حملے کا خطرہ ‘حقیقی’ اور ‘شدید’ہے۔
سیٹھ مولٹن کے ترجمان ٹم بیبا نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ وہ پہلے متحدہ عرب امارات گئے اور پھر افغانستان جانے والی خالی فوجی پرواز کے ذریعے کابل پہنچے۔
ترجمان کے مطابق دونوں ریپبلکن ارکان کابل پہنچنے کے 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں امریکیوں کے انخلا کے لیے استعمال کیے جانے والے ایک ہوائی جہاز میں واپس چلے گئے تھے۔
ٹم بیبا نے کہا کہ دونوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ صرف اسی صورت میں کابل سے نکلیں گے جب انہیں کسی طیارے میں تین خالی نشستیں دستیاب ہوں گی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ کسی اصل حقدار کی سیٹوں پر سفر کریں۔
ترجمان نے اخبار کو مزید بتایا کہ اس سفر کا مقصد ایسے علاقے میں جانا تھا جہاں ملک چھوڑنے والے افراد کو عارضی طور پر رکھا جا رہا تھا تاکہ انہیں اضافی معلومات اوران کی مؤثر نگرانی میں مدد مل سکے۔
سیٹھ مولٹن اور پیٹر میجر نے کابل میں کیا کیا؟
ایک مشترکہ بیان میں ، سیٹھ مولٹن اور پیٹر میجر نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ انہوں نے کابل میں سروس ممبران اور محکمہ خارجہ کے عہدیداروں کے ساتھ بات کی اور ان کا ماننا ہے کہ بائیڈن کو امریکیوں اور افغان شہریوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے 31 اگست کی آخری تاریخ میں توسیع کرنی چاہیے۔
کئی امریکی عہدیداروں اور سفارت کاروں نے دونوں کانگریس اراکین پر شدید تنقید کی اور کہا ہے کہ انہوں نے فوجی اور سویلین کارکنوں کی توجہ ہٹا دی جو کہ لوگوں کو جلد از جلد افغانستان سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک ناراض سفارت کار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ کام ہے جو انہوں نے ایک قانون ساز کو کرتے ہوئے سنا ہے۔
امریکی انتظامیہ کے ایک اور سینیئر عہدیدار نے اس عمل کو ‘بدمعاشی ‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ خودغرضی کی انتہا ہے کہ آپ امریکیوں اور خطرے سے دوچار افغانوں سے صرف اس لیے نشستیں لے لیں تاکہ آپ کو کیمروں کی توجہ مل جائے ۔