تازہ تر ین

ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ پاکستانی حکمران

عبدالستار خان
پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کاکوئی بھی سیاستدان جب ملک کا صدر‘ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بنتاہے تو بہت سے تنازعات کامجموعہ بن جاتاہے۔ کبھی کرپشن کے حوالے سے الزامات کی بوچھاڑ ہو جاتی ہے۔ کبھی واقعی بہت سنجیدہ قسم کی رپورٹ میڈیا میں آجاتی ہے۔کبھی تحقیقاتی ادارہ یا تو انکوائری شروع کردیتا ہے یا پھرگرفتار کرلیتاہے یا پھر کسی عدالت سے رہائی ہو جاتی ہے اوریا پھر سزا مل جاتی ہے۔ یعنی کہ کسی بھی صدر‘وزیراعظم اور وزیراعلیٰ چاہے اس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو۔ وہ تنازعات کے حوالے سے سب ہی زیادہ جانا اورپہچانا جاتا ہے۔ کتنی حقیقت ہے‘کتنی صداقت‘ بہرحال ہمارے لوگ حکمرانوں کو برائی کی جڑ سمجھنے پرمجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسا یقین ہونا شروع ہوجاتاہے کہ جیسے ملک کے تمام ترمسائل کی بنیادی وجہ ہی حکمران ہیں۔لیکن آج میں ایک ایسی صورتحال کو سامنے لا رہا ہوں جس نے ہمارے مبینہ طورپر یا حقیقی طورپر ہمارے کرپٹ حکمران ایک مسئلے پر کسی دوسرے ملک کے صدرسے بہتر ثابت ہوئے ہیں اور وہ ملک پاکستان کی نسبت اور غالباً پوری دنیاکے ممالک کی نسبت قانونی اوراخلاقی طورپر بہتر روایات کاپابند مانا جاتاہے اور وہ ملک ہے امریکہ اوروہ حکمران ہے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔
ہم ایک چیز حقائق اور دستاویزاتی ثبوت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نسبت پاکستان کے موجودہ اور سابقہ صدر‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ زیادہ انکم ٹیکس جمع کرواتے رہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ انکم ٹیکس کیس کی زد میں آسکتے ہیں اورکم ازکم انہیں 70ارب روپے دینے پڑ سکتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ہزار سولہ اور دوہزار سترہ میں مجموعی طورپر صرف اورصرف ایک لاکھ ستاون ہزار چارسو روپے انکم ٹیکس دیاتھا۔ ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان کے موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے دوہزار سولہ میں دو لاکھ پانچ ہزار 5سو چوّن روپے اوردوہزارسترہ میں تین لاکھ ستّر ہزار5سو گیارہ روپے انکم ٹیکس دیاتھا۔ مجموعی طورپر ان دونوں سالوں میں پاکستانی صدرڈاکٹر عارف علوی نے پانچ لاکھ اناسی ہزار باسٹھ روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی انہی دو سالوں کے انکم ٹیکس سے چار لاکھ اکیس ہزار چھ سو پینسٹھ روپے زیادہ ہے۔
اسی طرح سے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے 2016ء میں ایک لاکھ انسٹھ ہزار روپے اور دو ہزار سترہ میں ایک لاکھ تین ہزار تریسٹھ روپے انکم ٹیکس دیاتھا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے ایک لاکھ5ہزار نو سوبہتر روپے زیادہ ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف صاحب نے دوہزار سولہ میں پچیس لاکھ تیس ہزار2سوتیرہ روپے انکم ٹیکس دیا اوردوہزار سترہ میں دو لاکھ تریسٹھ ہزار ایک سو تہتر روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر نوازشریف صاحب نے ان دوسالوں میں ستائس لاکھ چھیاسی ہزار تین سو چھیاسی روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے چھبیس لاکھ اٹھاسی ہزار نو سو چھیاسی روپے زیاد ہ ہیں۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دوہزار سولہ میں چھبیس لاکھ اُنسٹھ ہزار ایک سو تراسی روپے اور دوہزار سترہ میں تیس لاکھ چھیاسی ہزار نو سو روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر ان دوسالوں کے دوران شاہد خاقان عباسی صاحب نے ستاون لاکھ چھیالیس ہزار دوسو اکہترروپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے پچپن لاکھ اٹھاسی ہزار آٹھ سو اکہتر روپے زیادہ ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف صاحب نے دوہزار سولہ میں 95,00,000روپے انکم ٹیکس دیا اوردوہزار سترہ میں ایک کروڑ روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر شہبازشریف نے ان دوسالوں میں ایک کروڑ95لاکھ روپے جمع کرائے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے انہی دو سالوں میں جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے ایک کروڑ ترانوے لاکھ 45ہزار روپے زیادہ ہے۔
موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ صاحب نے دوہزار سولہ میں 1,16,600روپے اوردوہزار سترہ میں 9,88,864روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر سید مراد علی شاہ صاحب نے ان دو سالوں میں 11,500,646روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے9,48,064روپے زیادہ ہیں۔
کے پی کے سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے دو ہزارسولہ میں 8,18,869روپے انکم ٹیکس دیا اور2017ء میں 9,27,500روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر پرویزخٹک صاحب نے ان دو سالوں میں 11,500,644روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے15,88,984روپے زیادہ ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار ثناء اللہ زہری صاحب نے2016ء میں 14,11,000اور 2017ء میں ایک کروڑروپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر سردارثناء اللہ زہری نے ان دوسالوں میں ایک کروڑ14لاکھ روپے انکم ٹیکس دیا جوڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ تریپن ہزار چھ سو روپے زیادہ ہیں۔
بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے2016ء میں 40,17,743روپے انکم ٹیکس دیا۔2017ء میں 61,45,989روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر ان دوسالوں میں جام کمال خان نے ایک کروڑ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار7سو23روپے انکم ٹیکس دیاجو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے ایک کروڑ روپے زیادہ ہیں۔
موجودہ وزیراعلیٰ کے پی کے محمود خان نے 2016ء میں کوئی انکم ٹیکس نہیں دیاتھا لیکن2017ء میں 2,32,725انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے 75,325روپے زیادہ ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی انکم ٹیکس کا موازنہ پاکستان کے موجودہ اورسابقہ وزیراعظم‘موجودہ اورسابقہ وزیراعلیٰ سے کرنے کایہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہمارے سابقہ اورموجودہ حکمران امریکہ کے سابقہ صدر سے بہتر حکمران ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ڈرمپ کا انکم ٹیکس کے حوالے سے امریکہ کیInternal Revenue Service(IRS) یعنی کہ پاکستانیFBRکے پاس ہے امریکہ کے سابقہ صدر نے امریکہ کی انتہائی پیچیدہ ٹیکسیشن نظام کو انکم ٹیکس بچانے کے حوالے سے exploitکیا۔
پچھلے کئی سالوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کی کمپنیاں خسارہ ظاہر کرتی رہیں اور انکم ٹیکس بچاتی رہیں لیکن اگرIRSنے ڈونلڈ ٹرمپ کے کیس کی پیچیدگیاں پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تو ڈونلڈ ٹرمپ کو فوری طورپر70ارب روپے کے قریب ٹیکس جمع کروانا پڑ جائے گا۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مستقبل بھی بری طرح متاثر ہو سکتاہے۔ امریکہ میں بہرحال یہ تاثر رہاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کیImpeachmentسے زیادہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انکم ٹیکس کے حوالے سے کیس خطرناک ہے۔اسی لحاظ سے ڈونلڈ ٹرمپ بچ نہیں سکتا لیکن پاکستان میں معاملہ بالکل ہی برعکس ہے۔ موجودہ حکمران سابقہ حکمرانوں کا رونارو رہا ہوتاہے اور سابقہ حکمران موجودہ حکمرانوں کو لعن طعن کررہے ہوتے ہیں کوئی بھی سیاسی جماعت اورسیاسی رہنما مبّرہ نہیں۔ ایک دوسرے کو کوسنے اورذاتیات پرکیچڑ اُچھالنے کے علاوہ سیاستدانوں کے پاس کوئی اور مناسب کام وقت گزاری کے لئے نہیں ہے۔
پی پی کادورہوتوFIAمسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے پیچھے پڑ جاتی ہے اورپھر مسلم لیگ ن کے دور میں پی پی پی کے رہنماؤں کی باری آجاتی ہے اور پھر اگر ان دونوں سیاسی جماعتوں کی حکومت نہ ہوتوNABان دونوں سیاسی جماعتوں کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔NABپر تنقید کرنے سے پہلے دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنما یہ بھول جاتے ہیں کہNABزیادہ ترانہی کیسوں کو لے کر آگے چل پڑتی ہے جو دراصل انہی دونوں جماعتوں کے دور میں ایک دوسرے کے خلاف بنائے گئے ہوتے ہیں۔
نوازشریف صاحب ہوں‘آصف زرداری صاحب ہوں‘ ہر ایک سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں ضرورت سے زیادہ ہی کردار کشی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ امریکی نظام میں کسی بھی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت کے بچنے کاامکان ختم ہو جاتاہے جب ان کے خلاف کوئی چیز ثابت ہو جائے لیکن پاکستانی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں بچنے کی ضرورت سے زیادہ گنجائش ہے اوراگر کوئی شخصیت کسی بھی قسم کی کارروائی کی زد میں آجاتی ہے تو غالباً امکان بن جاتاہے کہ نظام تو غالباً ثابت نہ کرسکا لیکن طاقت اور اثرورسوخ استعمال ہو گیا۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain