تازہ تر ین

افغانستان اوردنیا کارویہ

لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
افغانستان کامحل وقوع کچھ اس طرح کاہے کہ یہ وسطی ایشیا‘جنوبی ایشیا اورمغربی ایشیاکے سنگم پرواقع ہے اور خاص طورپر وسط ایشیا کے لئے سمندروں تک جانے کاراستہ بھی فراہم کر سکتا ہے اگر پاکستان او ر ایران تک اس کے ذریعے راستہ کھل جائے۔ اس بنیادی وجہ سے چین اورروس کے لئے یہ خاص اہمیت کاحامل ہے اور جس چیز سے بھی چین اور روس کوفائدہ پہنچے اس میں بھلا امریکہ اپنی ٹانگ کیوں نہ اڑائے؟
بھارت کے لئے بھی افغانستان کی بہت بڑی اہمیت ہے کہ یہ شمال کی طرف بھارت کو راستے فراہم کرسکتاہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پوری دنیا کے لئے انتہائی اہمیت کاحامل بن جاتاہے۔
اب ہم ذرا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں کہ ان تمام ممالک جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان کے اورکون کون سے مفادات افغانستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے چین ہی کو لے لیں۔ افغانستان میں چین کے مفادات سیاسی بھی‘ معاشی بھی اورعسکری بھی ہیں۔ افغانستان میں چونکہ بے شمار معدنیات موجود ہیں تو خود افغانستاان کاخطہ چین کے معاشی مفادات میں واضح حیثیت رکھتاہے اس کے علاوہ بی آرآئی(Belt Road Initiative) ہے جوکہ وسطی اشیا اور بحیرہ عرب کی طرف راستوں کے ساتھ منسلک ہو جاتاہے۔ لہٰذا چین کو مشرقِ وسطیٰ‘ مغربی ایشیاء اور افریقہ تک رسائی دینے کاموجب بھی بنتا ہے۔
روس کے سلسلے میں تو یہ کہا جاسکتاہے کہ ان کاصدیوں کا گرم پانیوں تک رسائی کا خواب افغانستان اور سی پیک کے ذریعے پورا ہو سکتا ہے۔اُدھر سے ان کو ایران تک بھی بآسانی رسائی حاصل ہو سکتی ہے گوکہ روس کے پاس ایران تک رسائی اور پہنچنے کے اوربھی راستے موجود ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی حیثیت تو بہت خصوصی ہے گوکہ بظاہر وقتاً فوقتاً دونوں ممالک میں کچھ تلخی نظر آتی رہی ہے لیکن بنیادی طورپر یہ دونوں ممالک دینی‘ نسلی‘ لسانی اور معاشرتی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک کی سرحد بھی باقی تما م ممالک کے مقابلے پر سب سے لمبی ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی طورپر کئی بار یہ ایک ہی خطے کاحصہ رہے ہیں۔
اس کی وجہ سے پاکستان کے دو صوبے خیبر پختونخوااور بلوچستان اور افغانستان کے درمیانی طرف کے لوگوں کی آمدورفت صوبوں سے آسان رہی ہے اور کچھ سال پہلے تک ان دونوں ملکوں میں آنے جانے کے لئے ایسی سہولیات میسر تھیں کہ کسی پاسپورٹ یا ویزے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اب جا کے سفری معاملات کچھ باضابطہ بنائے جا رہے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہر قسم کی تجارت سال کے تمام دنوں میں کھلی رہتی ہے لہٰذا پاکستان کے بھی افغانستان میں بہت گہرے مفادات ہیں۔
بھارت گو کہ افغانستان کا بلا واسطہ ہمسایہ تو نہیں ہے لیکن پاکستان کے ذریعے ان کی تجارت کا حجم بھی افغانستان کے ساتھ کافی بڑا رہا ہے گو کہ آج کل اس میں کچھ تعطل اور دشواریاں آئی ہیں جس کی بنیادی وجہ بھارت اور پاکستان کے تنازعات ہیں۔ جب ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ امریکہ اور چین کی معاشی اور سیاسی مخاصمت دنیا کے کئی خطوں میں موجود ہے، اس طرح افغانستان میں بھی امریکہ کی توجہ کا مرکزبن جاتا ہے۔ امریکہ کے روس اور وسط ایشیا کے کچھ ممالک کے اس سلسلے میں بہت سے تحفظات موجود ہیں۔ اب تک قارئین کو یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے جو تسلط قائم کیا اس کا واحد مقصد فقط القاعدہ کو ختم کرنا نہیں تھا بلکہ وہ یہاں پر اس طرح براجمان ہونا چاہ رہا تھا جس سے وہ چین، روس اور وسط ایشیا کے کچھ ممالک کے لئے راستے کی دیوار بن جائے اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔
آپ یہ اندازہ کیجئے کہ وہ 20 سال تک وہاں رہ کر نہ تو افغانستان کی تعمیر و ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کر سکا اور نہ ہی سیاسی طور پر افغان عوام کی کوئی خدمت کر پایا بلکہ وہاں پر توڑ پھوڑ اور انتشار پیدا کرکے ایک بڑا کردار ضرور ادا کیا لیکن چین کے اثر و رسوخ کو اس نے 15 سال پیچھے دھکیل دیا اور دو دہائیوں تک روس کا گرم پانیوں تک پہنچنے والا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ اب جبکہ امریکہ کی بساط افغانستان سے لپیٹ دی گئی ہے تو چین اور ایران اور پاکستان کے لئے بہت روشن روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں لیکن جس طرح کہا جاتا ہے“رسی جل گئی مل مگربل نہ گیا“ امریکہ کی آج بھی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت اپنے پاؤں نہ جمانے پائے، منافقت کی حد دیکھئے کہ نو ارب ڈالر کی وہ رقم جو افغانستان کے اپنے پیسے ہیں ان کو روک کر ان پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ حالانکہ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن بار بار یہ انتباہ کر رہی ہے کہ افغانستان میں خوراک کے حوالے سے کہیں قحط نہ پڑ جائے۔
اب دیکھنا یہ ہے جبکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تشکیل پا چکی ہے، عمومی طور پر دنیا اور خاص طور پر جن ممالک کا سطور بالا میں تذکرہ ہوا ہے وہ اپنے رویوں میں کیا تبدیلی لے کر آتے ہیں۔ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ چین، روس، ایران، پاکستان اور ترکی سمیت کوئی درجن بھر ممالک افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا ہی چاہتے ہیں جبکہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی خواہش یہ ہے کہ اس نئی حکومت کو نہ تو وہ خود تسلیم کریں اور نہ ہی دوسرے ممالک کو ایسا کرنے دیں۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ امریکہ اس حوالے سے دوبارہ منہ کی کھائے گا اور افغانستان کی حکومت کچھ عرصے میں سیاسی طور پر مستحکم ہو جائے گی البتہ معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے افغانستان کو دوست ممالک کی مدد اور کچھ وقت ضرور درکار ہوگا اور دوستوں کی کمی ہمیں نظر نہیں آتی۔ اس رسہ کشی کا جلد ہی اختتام ہونے والا ہے اور یوں لگتا ہے کہ آخرکار امریکہ، برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک اس علاقے کو چین اور روس کیلئے خالی چھوڑنے کی بجائے پینترا بدل کر یا بھیس بدل کر دوبارہ یہاں پر آن وارد ہوں گے اور اس سے پاکستان کی حیثیت بہت ممتاز ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل آپ کو مغربی ممالک کے بہت سے انتہائی اہم لوگوں کا آنا جانا نظر آتا ہے۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain