تازہ تر ین

نظریہ پاکستان‘ قائداعظم اور علامہ اقبال

میاں انوارالحق رامے
نظریہ پاکستان کی تعبیر و تشریح کیلئے ہمارے پاس کون سے معیارات ہیں کیا ان کو واقعات کی روشنی سے کشید کیا جا سکتا ہے۔ نظریہ پاکستان کی اصطلاح کے منابع تحریک پاکستان سے وابستہ کئے جا سکتے ہیں یا یہ نظریہ پاکستان کی تخلیق کے بعد عالم وجود میں آیا ہے۔ پاکستان میں ایک طبقہ کا خیال ہے کہ یہ اصطلاح میجر جنرل شیر علی کے دماغ کی پیداوار ہے۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ اصطلاح عشروں پہلے قومی مباحث کا حصہ بن چکی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو بھی نظریہ پاکستان کے عظیم داعی تھے۔ پاکستان کے ایک متنازعہ جج جسٹس منیر بھی اس کے بڑے حامی تھے۔
ہمارے لئے بے حد ضروری ہے کہ ہم پاکستان کی پارلیمانی اور سیاسی کوششوں کا جائزہ لیں پاکستان کو اسلامی تشخص دینے کے لئے کن کن لوگوں نے کیا کیا خدمات سرانجام دی تھیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی داغ بیل اور اس کی آئینی حیثیت 1973ء کے دستور میں رکھی گئی تھی لیکن اس کا خاکہ کسی دوسرے نام کے ساتھ عوام الناس کے ذہن میں موجود تھا۔ اگر ہم تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ایک ڈاکٹر اسد نام کی شخصیت کا خاکہ ہمارے ذہنوں میں ابھرے گا۔ ان کو محکمہ ”اسلامی تعمیر نو“ کے نام سے قائم ایک ادارے کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ جو بالآخر اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے عالم وجود میں آیا۔ پاکستان میں 1958ء سے مارشلاؤں کی بدعت کا آ غاز ہوا ہے۔ مارشل لاء کا پہلا نزلہ سیاسی جماعتوں پر گرتا ہے۔ 1962ء کے انتخابات کے بعد حکومت نے سیاسی جماعتوں کو بحال کردیا تھا 1962ء کے الیکشنز کا الیکٹرک کالج بلدیاتی اداروں کے منتخب کونسلر تھے۔ پاکستان کے وزیر قانون جسٹس محمد منیر نے 30جون 1962ء کو اسمبلی میں ایک بل پیش کیا تھا۔4جولائی کو یہ بل سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ 8جولائی کو کمیٹی نے اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کردی تھی۔ پارلیمنٹ میں اس پر بحث کا آغاز ہوتا ہے وزیر قانون نے بتایا کہ یہ بل دواصولوں پر مشتمل ہے۔ ایک اصول یہ ہے کہ ملک میں آزادانہ سیاسی سرگرمیاں ہونی چاہئیں مگر حالات کے پیش نظر کچھ تنظیموں پر قانون کے مطابق پابندی ہونی چاہئے۔ دوسرے یہ کہ خاص لوگوں کوکسی سیاسی پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ بل کی دفعہ 3 کے مطابق کوئی ایسی مجلس اور تنظیم نہیں قائم ہونی چاہیے جس کے مقاصد میں پاکستان یا اس کی وحدت کو نقصان پہچانا شامل ہو تیسرا ایسی سیاسی جماعت بھی نہیں ہونی چاہیے جو اپنی بقا کے لئے بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہو۔ سلیکٹ کمیٹی نے اس دفعہ میں لفظ نظریہ (ideology)شامل کرنے کی سفارش کی تھی۔ کمیٹی کے ایک اہم رکن قمرالاسلام نے اسمبلی کو اس کی وجہ بتاتے ہوئے جو سیاسی جماعتیں انقلاب سے پہلے کام کر رہی تھیں ان میں سے کچھ جماعتوں کا منشور اور حکمت عملی براہ راست پاکستان کے نظریے سلامتی اور وحدت کے خلاف تھیں کچھ جماعتوں کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ محب وطن نہیں ہیں دائیں اور بائیں بازو میں بھی شکر رنجی رہتی تھی اس بنا پر سلیکٹ کمیٹی نے مناسب سمجھا کہ بل میں نظریہ کا لفظ شامل کیا جائے۔ بل پر دھواں دھار بحث کے دوران نظریہ کا لفظ بنیادی نقطہ بن گیا اورتین آرا سامنے آئیں ایک یہ کہ نظریہ کا لفظ شامل نہ کیا جائیدوسرا یہ کہ نظریہ مبہم لفظ ہے۔ بل کی دفعہ دو جو تعریفات کے متعلق ہے اس میں نظریے کی تعریف درج کی جائے۔تیسرا یہ کہ دفعہ تین میں نظریہ کی بجائے اسلامی نظریہ (۔ islamic ideology) کے الفاظ شامل کئے جائیں۔ ترمیم کے بعد دفعہ 3کے الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کوئی ایسی جماعت تشکیل نہیں دی جا سکتی جس کا مقصد ایسی رائے تبلیغ کرنا ہو یا کسی ایسے طریقے سے کام کرنا ہو جو اسلامی نظریہ برائے وحدت سلامتی پاکستان کیلئے نقصان دہ ہو۔اس ترمیم کے ساتھ بل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ جسٹس منیر نے بل پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا جو ان کے عام آزادانہ خیالات سے بالکل مختلف تھا۔ انہوں نے کہاکیا کہ میں نے اس مسلئے پر خوب غور کیا ہے لفظ آئیڈیالوجی سے پہلے اسلامک کا لفظ اضافہ کرنے سے کسی طرح بھی اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر فرق نہیں پڑے گا۔ میرا یہ خیال ہے کہ ان الفاظ کی موجودگی میں بھی وہ سیاسی جماعتوں کی تشکیل میں آزاد ہونگی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو اسلامی تصورات کے خلاف پروپیگنڈہ کی شکل نہیں دے سکیں گی۔ اس بل کے حوالے سے اگر بھٹو صاحب کی تقریر پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جامعہ قاہرہ کا کوئی معلم گفتگو کر رہا ہے۔ بھٹو نے کہا کہ ریاست پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے ایک علاقائی ریاست نہیں ہے اگر ہمارے نظریے کو کوئی چیلنج درپیش ہے تو ہم اپنے نظریے کی برتری ثابت کریں گے۔ ہم مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہم اپنے دین کے لئے جانیں قربان کریں گے اور ہم اپنے نظریے کیلئے موت کو گلے لگا لیں گے۔ مزید کہا کہ اقلیتوں کے برابر حقوق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اقلیتیں ریاست کی بنیادی قوت کو ختم کر سکیں اور انہیں ریاست کی بنیادوں کو ملیا میٹ کرنے کی اجازت ہو گی اس کی اجازت کبھی نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی کبھی دی جائے گی۔ اگر آپ پاکستان کے نظریہ کو مٹا دیتے ہیں تو پاکستان کے وجود کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں اور اس بات کی اجازت کبھی اور کسی حال میں نہیں دی جائے گی۔ اس پر طرفین کی طرف سے عمدہ بحث ہوئی بالخصوص بھٹو چوہدری فضل الٰہی‘ اختر السلام احمد‘سید عبدالسلطان‘حسن اخترحسن راجہ اور عبدالمنتقم چوہدری کی تقاریر پڑھنے کے قابل ہیں۔ مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک نے بعض اپنی تحریروں میں یہ بتایا ہے قائد اعظم نے کب اور کہاں اًئیڈیالوجی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان شہادتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آئیڈ یالوجی کا لفظ نواب شیر علی کا مرہون منت نہیں ہے۔
بد قسمتی سے بہت سے پاکستانی دانشور نظریاتی حوالے سے قائد اعظم کو سیکولر سمجھتے ہیں جبکہ ہندوستانی مصنفین پاکستان کو منفی سیاست کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔ قائد اعظم نے علی گڑھ میں 8مارچ 1944ء کو ایک تقریر کی تھی جس کے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں یہ تقریر ثابت کرتی ہے کہ قائداعظم ایک نظریاتی لیڈر تھے۔ پاکستان ہند وؤں کے مناسب یا غیر مناسب رویے کی پیداوار نہیں ہے یہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ صرف انہیں اس کا شعور نہیں تھا ہندو اور مسلمان اکٹھے رہنے کے باوجود ایک قوم نہیں بنے۔ان کا تشخص ہمیشہ جدا جدا رہا جونہی ایک ہندو مسلمان ہوتا ہے وہ سیاسی۔ سماجی۔ ثقافتی امور معاشی طور پر اپنے ماضی سے کٹ جاتا ہے۔مسلمان اپنی انفرادیت اور تشخص کسی بھی معاشرے میں ضم نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک اکٹھے رہنے کے باوجود ہندو ہندو اور مسلمان مسلمان رہے اور یہی پاکستان کی بنیاد ہے۔ یورپین اور امریکی باشندوں کے اس اجتماع میں ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا خالق کون تھا تو جناح کا جواب تھا ہر مسلمان۔ قائد اعظم کی آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ 1939ء میں کی گئی تقریر کے چند فقرے نمونے کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا ہے دولت۔ شہرت۔عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے ہیں اب میری زندگی کے واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں۔میں چاہتا ہوں جب میں مروں تو یقین اور اطمینان لے کر مروں میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی ہے۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل۔ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت اسلام کا حق ادا کردیا ہے۔ جناح تم مسلمانوں کے حمایت کا فرض بجا لائے ہو۔ میرا خدا کہے بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفرکی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کو سر بلند رکھتے ہوئے مسلم مرے۔
قائد اعظم مسلسل یہ کہتے رہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ سیرت النبیؐ ہمارے لئے اعلیٰ نمونہ ہے جمہوریت مساوات اور انصاف ہم نے اسلام سے سیکھا ہے۔ علامہ اقبال کا سا راکلام نظریہ اسلام اور پاکستان کی گواہی دیتا ہے قائد اعظم نے کہا تھا اگر میری زندگی میں مسلم ریاست کا قیام ظہور پذیر ہوا اور مجھے اس ریاست کی حکمرانی اور کلام اقبال میں انتخاب کرنے کو کہا جائے تو میں کلام اقبال کو ترجیح دوں گا۔
(کالم نگارمعروف سابق پارلیمنٹیرین اورپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں)
٭……٭……٭

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain