تازہ تر ین

نئے صوبے کیلئے سیاسی مکالمے کی ضرورت

اکستان کے مختلف سیاسی مسائل کی ایک بڑی وجہ صوبوں کی آبادی میں توازن نہ ہونا بھی ہے۔ 22 کروڑ آبادی پر مشتمل ملک کے صرف ایک صوبے پنجاب کی آبادی 12 کروڑ کے قریب ہے۔ قومی اسمبلی کی 272 براہ راست نشستوں میں 141 صرف پنجاب کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت دیگر صوبوں میں قابلِ ذکر ووٹ حاصل نہ کرنے کے باوجود ملک میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجاتی ہے جس سے دیگر صوبے حق تلفی اور اپنی اہمیت میں کمی محسوس کرتے ہیں۔دوسری جانب پنجاب کے اندر بھی اتنے بڑے صوبے کا انتظامی کنٹرول مشکل ہو جاتا ہے۔ ماضی میں صوبے کے حکمرانوں کی توجہ اپر پنجاب پر رہی جس سے سرائیکی بیلٹ کے لوگ پیچھے رہ گئے۔ ان کو صحت کی سہولتیں ملیں نہ تعلیم کی۔ نتیجتاً وہ ناصرف بڑی سرکاری نوکریوں بلکہ وسائل کی تقسیم میں بھی پیچھے رہ گئے۔ان مسائل کا حل نئے صوبے کے قیام میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں حکومت کے قیام کے پہلے سو دنوں میں نئے صوبے کے قیام کے لئے بنیادی عملی اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تقریبا پونے بارہ سو دنوں بعد بھی اس طرف کوئی یقینی پیش رفت سامنے نظر نہیں آ رہی۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پنجاب حکومت کے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں صوبائی سیکرٹریٹ کے لئے رولز آف بزنس کی منظوری کو بڑی پیش رفت قرار دیا ہے جن کے تحت ملتان اور بہاولپور میں موجود 16 محکموں کے سیکرٹریز یہاں کے گریڈ 17 تک کے افسروں کے تبادلے، تعیناتیاں اور بھرتیاں کر سکیں گے۔ نیز جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حدود اربعہ بارے بھی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں مجوزہ نئے صوبے کو ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژن کے 11 اضلاع پر مشتمل قرار دیا گیا ہے۔
صوبہ پنجاب کی تقسیم اور نئے صوبے کا قیام سرائیکی خطے کا اہم ترین لیکن گنجلک مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لئے کبھی کسی نے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ تمام پارٹیوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے تو علیحدہ صوبے کا خوب ڈھنڈورا پیٹا لیکن جب عملی پیش رفت کا وقت آیا تو تمام پارٹیوں کو سیاسی مجبوریوں نے گھیر لیا۔ نتیجہ یہ کہ گزشتہ کئی عشروں سے اس خطے کے حقوق کا استحصال جاری ہے، نیز یہاں کے عوام اپنی سیاسی شناخت کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ خطے کی چاروں بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق نئے صوبے کے قیام پر تو متفق ہیں لیکن ہر پارٹی کا نئے صوبے بارے نقطہ نظر مختلف ہے۔ ان میں اختلافات صوبے کے نام، حدود اربعہ، صدر مقام اور نئے صوبے کے قیام کے دیگر صوبوں پر اثرات سے متعلق ہیں۔ پیپلز پارٹی گوجرانوالہ ڈویژن کے ضلع بھکر اور میانوالی کو ساتھ ملا کر 13 اضلاع پر مشتمل سرائیکی صوبے کا قیام اس شرط کے ساتھ چاہتی ہے کہ اس کے بعد سندھ کی تقسیم کا کوئی مطالبہ سامنے نہ آئے۔ مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ سرائیکی صوبہ بن گیا تو پورا خطہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا ایسے میں مرکز میں اس کے لئے حکومت بنانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ اس کے تدارک کے لئے وہ سرائیکی صوبہ کے نام کی مخالف ہے، ساتھ ہی اپنے سیاسی نقصان کو کم کرنے کے لئے اس نے بہاولپور صوبہ بحالی کا بھی شوشہ چھوڑا ہوا ہے۔مسلم لیگ ن نے ہزارہ صوبے کا قیام بھی اپنے منشور میں شامل کیا ہے۔ مسلم لیگ ق کی بھی دلچسپی بہاولپور صوبہ کے قیام میں ہے تاکہ پارٹی کے اہم رہنما طارق بشیر چیمہ کا بہاولپور میں ذاتی ووٹ بینک محفوظ رہ سکے۔ اس حوالے سے وہ ن لیگ کی ہاں میں ہاں ملانے کو بھی تیار ہے۔ تحریک انصاف جس کی حکومت خالصتا ًسرائیکی خطے کے ووٹ کی مرہون منت ہے۔ نئے صوبے کے لئے فوری قدم بڑھانے کو تیار نہیں کیونکہ وہ وسطی پنجاب کی نئی اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے گی اور حکومت مسلم لیگ ن کے حوالے کر نا پڑ جائے گی۔لہٰذا پی ٹی آئی نئے صوبے بارے کوشش کرنے کو تو تیار ہے لیکن یہ فیصلہ کن کوشش اقتدار کے آخری چھ ماہ میں جا کر ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل وہ ن لیگ کو اپر پنجاب کی حکمرانی دینے کا رسک لینے کو ہرگز تیار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیکرٹریٹ اور اس کے رولز آف بزنس کی تیاری پر 3 سال سے زائد کا عرصہ لگا دیا گیا۔ نئے صوبے کے قیام کے لئے اہم سٹیک ہولڈر اس خطے کے دانشور، شعرا اور سرائیکی قوم پرست رہنما اور پارٹیاں بھی ہیں جو اپنی سرائیکی شناخت کے ساتھ ساتھ 23 اضلاع پر مشتمل صوبے کے خواہاں ہیں۔تحریک انصاف دو تہائی اکثریت نہ ہونے کا کہہ کر اپنی مجبوری تو بیان کرتی ہے لیکن دوسری پارٹیوں سے مل کر مسئلے کے حل کی طرف ابھی تک نہیں آرہی۔
ضروری ہے کہ ایک با اختیار کمیشن کے ذریعے نہ صرف ان رہنماؤں بلکہ دیگر تمام مقامی اور قومی پارٹیوں سے سیاسی مکالمے اور مثبت بات چیت کا سلسلہ فوری شروع کیا جائے تاکہ نئے صوبے کا قیام یقینی بناتے ہوئے ایک متوازن پاکستان کی طرف بڑھا جا سکے۔ تحریک انصاف کو برسر اقتدار پارٹی ہونے کے ناطے یاد رکھنا چاہئے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے نئے صوبے کا وعدہ نہیں نبھایا تو عوام نے دونوں پارٹیوں کو اس خطے سے تقریبا فارغ ہی کر دیا۔ اور تحریک انصاف کو 100 دنوں میں الگ صوبے کے قیام کے وعدے پر ووٹوں سے لاد دیا۔ لیکن اگر پی ٹی آئی بھی اس مسئلے کو غیر اہم سمجھ کر آنکھیں چرا لیتی ہے تو آئندہ الیکشن میں اس کا انجام بھی پہلی پارٹیوں سے مختلف نہیں ہوگا۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain