تازہ تر ین

مولانافضل الرحمن اورپاکستان کی صحافت

عبدالستار خان
پاکستان کی سیاست میں مولانا فضل الرحمن کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ شائد سیاست کے مدوجزران سے بہترکوئی دوسرا سیاستدان نہیں جانتا۔ سیاست کو بیانیہ کے انداز میں پیش کرنے کامولانا فضل الرحمن کا اپنا ہی انداز رہا ہے۔جو سب سے جداگانہ ہے۔میں ایک ٹی وی چینل کااسلام آباد میں بیوروچیف تھا۔میں اکثر اپنے رپورٹرز کو کہتا تھا کہ تم لوگوں کاسیاسی میدان میں رپورٹنگ کا امتحان مولانا فضل الرحمن سے ایک ایسا سوال ہے جو مولانا فضل الرحمن کو حقیقی معنوں میں لاجواب کردے یا پھر مولانا فضل الرحمن آپ کے سوال سے پریشان ہوجائیں یا پھر ٹی وی پر گفتگو کے دوران ایکpause آجائے۔pauseکے بارے کہا جاتا ہے ٹی وی پر pauseایک killing ہے۔
میں بے ہودگی،بدتمیزی،چیخ وپکا ر اور ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کی بات نہیں کررہا اور بدقسمتی سے یہ ماحول ہمارے ٹی وی شوز پر غلبہ پاچکا ہے۔میں تو صرف ایک ایسے سوال کی بات کرتا رہا جس کے جواب میں یا تو خاموشی ہوجائے یا پھر لاجواب۔اسی طرح سے میں اپنے کچھ اینکر دوستوں سے جو مختلف سیاسی رہنماوں سے انٹرویو کیا کرتے تھے ان سے پوچھتا تھا کہ وہ کون سا رہنما ہے جس کا انٹرویو کرتے ہوئے آپ لوگوں کو لگ پتہ جاتا تھا اور اکثریت کا جواب مولانا فضل الرحمن تھا۔ اورکچھ ٹی وی اینکرز کا خیال تھا کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو ٹف ٹائم دیا لیکن جب میں ان شوز کو دیکھتا تھاتو میں اپنے دوست ٹی وی اینکرز کو کہتا تھا کہ جناب! آپ نے مولانا کو ٹف ٹائم نہیں دیا الٹا مولانا نے آپ کو ٹف ٹائم دیا ہے۔میں نے اپنے صحافتی کیرئیر میں مولانا فضل الرحمن کی حد تک یہ محسوس کرلیا تھاکہ غالباً وہ پاکستان کے ایسے سیاستدان ہیں جو سیاسی گفتگو ایک الگ تھلگ،نپے تلے انداز میں کرتے ہیں۔نیز سیاسی قلابازیوں میں بھی مولانا فضل الرحمن کا اپنا ہی انداز رہا ہے۔یہاں تک کہ میرے بھارتی صحافی دوست جب پاکستان آتے تھے تو وہ تقریباًہر سیاسی جماعت کے سربراہ اور صف اول کی قیادت کا انٹرویو کرتے تھے۔جب میں ان سے پوچھتا تھاکہ بتاؤ کس کا انٹرویو کرکے آپ کو سب سے زیادہ مزہ آتا ہے یا پھر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی رہنما کمال کی گفتگو کرتا ہے یا انٹرویو کرنے والوں کو پریشان کردیتا ہے تو ان کا جواب بھی مولانا فضل الرحمن ہی ہوتا تھا۔بھارتی صحافیوں کایہ کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ انٹرویو کرنے کے لئے انہیں سب سے زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی کیونکہ ان کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا تھاکہ بہت سے لاجواب سوالوں“ کا جواب بھی مولانا فضل الرحمن کے پاس ہوتا تھا۔کیونکہ مولانا فضل الرحمن بڑی آسانی سے ہنستے کھیلتے ہوئے جواب دے جایا کرتے تھے جو بھارتی صحافیوں کو پریشان کردیتے تھے جس کا وہ برملا اظہار میرے سامنے کرجاتے تھے۔
حکومت وقت کے ساتھ رہنے کا بھی مولانا فضل الرحمن کا اپنا ہی انداز تھا نہ تو وہ پیپلز پارٹی میں تھے نہ ہی مسلم لیگ ن میں لیکن کچھ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمن تو ہم سے بھی زیادہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید،سابق صدر آسف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ہم سے بھی زیادہ قریب ہیں۔لیکن اب پچھلے تین سالوں میں وہی مولانا فضل الرحمن کئی بارسیاسی گفتگو کرتے ہوئے غصہ میں پائے جاتے ہیں۔ماضی کے اپنے ہی انداز کے بالکل برعکس اور پاکستان کے باقی سیاسی رہنماوں کی طرح جوش میں بات کرجاتے ہیں۔ایسے لگتا ہے جیسے انہیں غصہ چڑھا ہے یا پھرمولانا فضل الرحمن کسی صدمے یا تکلیف میں ہیں۔میری حد تک اس کی وجہ غالباً 25جولائی2018کے الیکشن ہیں۔جس میں مولانا ہار گئے تھے۔یا تو مولانا کو اپنی ہار کا بالکل یقین نہیں تھا پھر وہ اپنی ہار کا ملک کے طاقتور ترین حلقوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اوریا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ طاقتور ترین حلقوں نے ان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ آپ کی نشستیں محفوظ رہیں گی لیکن شائد الیکشن کے موقع پر وہی حلقے اپنی بات پر قائم نہ رہ پائے ہوں۔الیکشن کے بعد مولانا فضل الرحمن جس غصہ کے ساتھ طاقتور ترین حلقوں پر چڑھتے رہے ہیں اس طرح سے تو صرف مریم نواز ہی حملہ آور ہوتی ہیں۔
اگرچہ مریم نواز آج کے دور کی وہ سیاستدان ہیں جو کچھ حلقوں پر شدید تنقید کرتی رہتی ہیں۔لیکن پھر بھی کچھ موقعوں پرمولانا فضل الرحمن مریم نواز کو بھی مات دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔مریم نواز صاحبہ مولانا فضل الرحمن سے سیاست میں بہت جونیر ہیں۔یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ مریم نواز اور شریف خاندان کو یقین ہے کہ ان کی مضبوط حکومت کو ختم کرنے میں مکمل طور پر جانبدارانہ کردار ادا کیا جس کی وجہ سے مریم نواز کا مستقبل کا وزیر اعظم ہونا بھی مشکوک ہوگیا۔لیکن مولانا فضل الرحمن کا انداز گفتگو تو ایسے بدلا جیسے طاقتور ترین حلقوں میں نواز شریف صاحب کی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہی کی حکومت ختم کردی گئی۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain