رانامحبوب ا ختر
2023 میں بلاول بھٹو زرداری کا پہلا بڑا انتخابی معرکہ ہوگا جب کہ دوسری بڑی جماعتوں کے قائدین اپنا آخری انتخاب لڑ رہے ہوں گے۔ طبعی عمر کے کھیل میں بلاول کو برتری حاصل ہے اور مخالفین خسارے میں ہیں۔ملتان میں بلاول بھٹو سے ملنے والے دانش وروں میں سے ایک نے کہا کہ بلاول بھٹو ایک حیران کن نوجوان ہے۔ دوسرے نے کہا کہ بلاول کو دیکھنا (نعوذباللہ) ثواب ہے۔یہ عقیدت کی بات ہے کہ صدیوں سے سامراجیت کا شکار مظلوم وسیب مظلوم بھٹوز سے عقیدت رکھتا ہے۔ بلاول کا ڈی این اے بھٹوز کی شعلگی اور آصف علی زرداری کی عملیت پسندی کا آمیزہ ہے۔ افغانستان میں زمیں زادوں کی فتح پاکستان کے لئے تزویراتی نعمت ہے اور امریکی شکست سامراجیت کے زوال کی نوید ہے مگر طالبانی ماضی سے دنیا خوفزدہ ہے۔ پرانے طالبان کی طرح نئے طالبان کا مسئلہ inclusive سماج سے انکار ہے۔ ہمارے مشرق میں نریندرا مودی اور آر ایس ایس کی ہندو بربریت کا راج ہے۔ دو بنیاد پرست ریاستوں کے درمیان پاکستان کو متوازن اور inclusive polity بننے کا چیلنج درپیش ہے۔کیا پاکستانی ریاست اور بلاول بھٹو کے مقاصد میں مطابقت یا synergyکا امکان ہے؟ یہ بلاول کی ذکاوت اور ریاست کے اجتماعی شعور کا امتحان ہے۔ ایک عام فہم بات یہ ہے کہ اچھی حکومت، اچھی سیاست ہوتی ہے۔سندھ حکومت کے سیکرٹری تعلیم اور روشن دماغ لکھاری اکبر لغاری نے حال ہی میں میرٹ کے خلاف تمام تقرریاں منسوخ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی۔ بلاول کے نامور ساتھی مخدوم احمد محمود اچھی حکومت کی بات تواتر کے ساتھ کرتے ہیں اور بطور گورنر انہوں نے نیک نامی بھی کمائی ہے۔بلاول کا دوسرا چیلنج پسماندہ اور متشدد پاکستانی سیاست کو تہذیب آشنا کرنا ہے۔ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو جانتے تھے کہ تاریخ کو وقت کے اعلیٰ آدمی کو قتل کرنے کی عادت ہے۔ سقراط کو جب زہر کا پیالہ دیا گیا تو ایتھنز کی شہری ریاست سپارٹا سے شکست کھا چکی تھی۔ بھٹو کو بھی مشرقی پاکستان کی شکست کے بعد ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر دار کی خشک ٹہنی پہ وارا گیا۔ اپنے اعلیٰ آدمی کو مارنا شکست خوردہ سماج کی عادت ہے۔ بلاول بھٹو کو مگر ایک فاتح اسٹیبلشمنٹ سے مکالمہ درپیش ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک شعلہ صفت بھٹو کی جگہ ایک cool as cucumber قدیم DNA والے بلاول سے واسطہ ہے۔ موہنجوداڑو کی قدیم تہذیبی روایت اچھی حکومت کے ملاپ سے وہ معجزہ برپا کر سکتی ہے جس کا صدیوں سے انتظار ہے۔Structural imperialism سے آزادی کا معجزہ پاکستان کو غربت، بیماری، مذہبی جنون اور بربریت کی غلامی سے نجات دلا سکتا ہے۔
اس کے لئے ماضی کی نئی تفسیر بھی درکار ہوگی۔ قابل استعمال ماضی یا usable past کو اپنی اجتماعی دانش کا حصہ بنانے کے ساتھ مردہ ماضی کو تاریخی amnesia کے حوالے کرنا ہوگا۔ mythopoetic heroes کا زمانہ تمام ہوا۔ دارا و سکندر اب نہیں آئیں گے۔ چنگیز خاں اور ہلاکو خاں جیسی toxic masculinity کے مریض مٹ گئے۔ڈونلڈ ٹرمپ،بورس جانسن، اربان اور بولسینارو کے بعد دنیا روشن خیال، امن پسند اور انسانیت نواز لیڈروں کی تلاش میں ہے۔ نئی تاریخ، رحمتؐ الّلعالمین کا کلمہ پڑھتی ہے۔ سب کے لئے رحمت،آج کے لیڈر کے لئے حکمِ مطلق ہے کہ غصے اور کرودھ سے ماورا قیادت ہی ایک پُر امن دنیا کی تخلیق کر سکتی ہے۔ فساد سے بھری دنیا کو السلام علیکم کی اعلانیہ سلامتی درکار ہے کہ دنیا سفید نسل پرست سامراجیت، ہندوتوا اور طالبانی کرودھ سے تنگ ہے۔ ثقافتی پاکستان ہمارا مقدرہے کہ cultural federalismہی پاکستانی وفاق کومضبوط بنا سکتا ہے۔ بلاول بھٹو کے پاس سندھ وادی اور جھولے لعل کا healing touchہے۔ پاکستانی ریاست کے خدشات اور پاکستان کے غریبوں کے خوابوں کو ہم آہنگ کرنا مگر ایک کٹھن مرحلہ ہے۔
دیدہ ور، اسلم انصاری کہتے ہیں کہ اگر مولانا روم مثنوی نہ لکھتے تو اسلامی فکر اور علم الکلام کی پانچ صدیاں گونگی رہ جاتیں۔ سرائیکی وسیب کے شاعروں نے تاریخ کی گونگی صدیوں کو زبان دی ہے۔عاشق بزدار، احمد طارق، رفعت عباس، اشو لال، جہانگیر مخلص اور عزیز شاہد وسیب کے فردوسی ہیں۔ سرائیکی وسیب کے لگ بھگ دس ہزار سے زیادہ شاعروں نے مشاعرے کو سیاسی جلسے بنا دیا ہے۔آج صوبہ نئے اور پرانے زمیں زادوں کا متفقہ مطالبہ ہے۔ ہر بڑی قومی سیاسی جماعت وسیب میں انتخابات کے وقت صوبے کی حمایت کرتی ہے اور انتخابات جیتنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا عذر رکھ کر مکر جاتی ہے۔ 2018 کی طرح 2023 کے انتخابات میں بھی سرائیکی وسیب کے ووٹ اسلام آباد کے تخت کے حصول کے لئے فیصلہ کن ہوں گے۔ پی ٹی آئی سو دنوں میں کیا تین سالوں میں صوبہ نہیں بنا سکی۔ مگر عمران خان کو جاننے والے دوست بتاتے ہیں کہ وہ اپنا آخری اوور پورے زور سے پھینکیں گے اور سرائیکی صوبہ بنا کر انتخابی میچ جیتنے کی کوشش کریں گے۔ بلاول کے دورے میں بارہا یہ سوال اٹھایا گیا کہ آپ کی جماعت صوبہ تو کجا، سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب کہتی ہے۔جنوبی پنجاب کا نام سرائیکی صوبے کا مقدمہ کمزور کرنے والا misnomer اور gimmick ہے۔چھوٹے صوبے، پنجاب کی سینٹ کی نشستیں دگنی ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جنوبی پنجاب صوبے سے وفاق پر پنجاب کی تجارتی اور صنعتی اشرافیہ کی گرفت مضبوط تر ہو جائے گی۔تاریخی طور پر لاہور اور ملتان صدیوں سے دو مختلف سیاسی اکائیاں ہیں۔ ملتان، ادی استھان ہے۔ ادی کا مطلب پہلا اور استھان کا مطلب، اسمبلی یا آستانہ ہے۔ 1849 میں انگریز سامراج نے ملتان صوبائی شناخت ختم کی تھی کہ لیفٹیننٹ اینڈرسن اور وانس اگنیو قتل ہو گئے تھے اور ملتان نے نو مہینے مزاحمت کی تھی۔ ملتان کو سامراجی کرودھ کی وجہ سے لاہور میں ضم کرکے ملتان کی صوبائی حیثیت ختم کی گئی کہ رنجیت سنگھ کے دور میں بھی ملتان صوبہ تھا۔ قبضے اور لوٹ مارکے بعد شناخت مٹانا آزمودہ سامراجی ہتھکنڈہ ہے۔1947میں آزادی ملی مگر سامراجی ساختیاتی انتظام برقرار رہا۔ صوبہ بحال نہ ہوا کہ ملتان کی قدامت، شناخت اور تاریخ کی ہمدردانہ تفہیم کے بغیر صوبے کی بحالی ناممکن ہے۔ سرائیکی صوبہ، ملتان کی بازیافت کا نام ہے۔بلاول سے زیادہ یہ پیراڈائم اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہے کہ سرائیکی صوبے کے بغیر متوازن وفاق کا قیام ناممکن ہے۔
بلاول نے ملتان میں میاں مظہر عباس کو این اے 156 سے ٹکٹ کا عندیہ دیا ہے۔ ملتان کا یہ گنجان آباد شہری علاقہ، مخدوم شاہ محمود قریشی کا حلقہء انتخاب ہے۔ہمارے مرنجاں مرنج دوست اور سینئر سیاسی رہنماء، مخدوم تنویر الحسن گیلانی کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی، تحریکِ انصاف کے واحد رہنما ہیں جو سیاست جانتے ہیں۔ مظہر عباس کے بارے میں ایک جلے ہوئے جیالے نے کہا کہ وہ 1970 کی دہائی کے جاوید ہاشمی اور 1983 کے یوسف رضا گیلانی ہیں کہ وہ مخادیم کے راستے پر ہی چل رہے ہیں۔ کہنہ مشق شاہ محمود قریشی negative ووٹنگ کو کیسے روکتے ہیں اور مظہر عباس کس طرح ناراض ووٹروں اور حلقے کی بڑی انصاری، رانا، بھٹہ اور جانگلہ برادریوں کو مائل کرتے ہیں۔ اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔
بلاول بھٹو کا دورہء ملتان ایک mixed bag تھا۔ جس میں ان کی outreach میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ ان کی inner reachسے بہت کم ہے۔ اس دوران جیالوں کے مچاٹے جاری رہے اور ان کی دلبری کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔بلاول کے جانے کے بعد کینٹ بورڈ ملتان کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا ایک امیدوار بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ مغل عہد میں یہ کہا جاتا تھا کہ جس کا ملتان مضبوط ہو وہ دلی پر حکمرانی کرتا ہے۔ بلاول کا ملتان کینٹ بورڈ کے انتخابات سے طشت از بام ہے۔دوسری طرف، زخم خوردہ نواز شریف آخری قہقہے کا انتظار کرتے ہیں تو شہباز شریف سفارت کاری کے گُر آزما رہے ہیں۔مگر ایک بات طے ہے کہ 2023 کا انتخاب بلاول بھٹو کا پہلا اور ان کے مخالفوں کا آخری الیکشن ہوگا۔
(کالم نگارقومی وبین الاقوامی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭