تازہ تر ین

کیاکنٹونمنٹ بورڈ کے بعد بلدیاتی الیکشن ہونگے

خدا یار خان چنڑ
پاکستان میں کنٹونمنٹ یعنی چھاونیوں کو فوج کی مستقل قیام گاہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ علاقے کنٹونمنٹ بورڈز کے زیر انتظام ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ ڈیپارٹمنٹ، وزارت دفاع، حکومت پاکستان کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور چھاونیوں کو کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے تحت قائم کیا جاتا ہے۔ قیامِ امن کی وجہ سے چھاونیوں کا آبادیاتی کردار بدل گیا ہے۔ اب کنٹونمنٹ میں اہم شہری آبادی اور نجی کاروبار بھی شامل ہو چکا ہے۔
پاکستان میں اس وقت 44 کنٹونمنٹ (چھانیاں)ہیں۔ پنجاب میں 23، خیبر پختونخوا میں 9، سندھ میں 8، بلوچستان میں 4 اور گلگت بلتستان میں 2 کنٹونمنٹس ہیں۔ سول آبادی کی بنیاد پر چھاونیوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کلاس ون کنٹونمنٹ وہ ہوتا ہے جس میں سول آبادی ایک لاکھ یا اس سے زیادہ ہے۔ کلاس 2 کنٹونمنٹ میں سول آبادی پچاس ہزار یا اس سے زیادہ مگر ایک لاکھ سے کم جبکہ کلاس تھری کنٹونمنٹ میں سول آبادی پچاس ہزار سے کم ہوتی ہے۔
پاکستان میں آخری بلدیاتی انتخابات 2015 میں ہوئے۔ چندروز پہلے ملک بھر میں ہونے والے 42 کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں 13 کلاس ون کینٹ، 9 کلاس ٹو اور 20 کلاس تھری کنٹونمنٹ بورڈز شامل تھے۔
راولپنڈی و چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈسمیت ضلع راولپنڈی کے مجموعی طور پر 36 وارڈوں میں سے راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کی 9 میں سے 7 نشستوں پر مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کر لی۔ 2 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب قرار پائے۔چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈ کی 10میں سے 5وارڈوں پر مسلم لیگ ن،2پر جماعت اسلامی،2پر تحریک انصاف اوریوں ملک بھر کے 42 کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کا دنگل مکمل ہو گیا۔ تمام 212 وارڈز کے غیرحتمی غیرسرکاری نتائج موصول ہو چکے ہیں ۔ حکمران جماعت کو لاہور، راولپنڈی، ملتان، پشاور میں بڑا دھچکا لگا ہے۔ غیرحتمی غیرسرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے 60، پاکستان مسلم لیگ (ن)59، آزادامیدواروں نے 55، پاکستان پیپلز پارٹی17،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 10،جماعت اسلامی7،عوامی نیشنل پارٹی2 اوربلوچستان عوامی پارٹی نے 2نشستوں پرکامیابی حاصل کی ہے۔
ملک بھر میں 7 نشستوں پر پہلے ہی امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ لاہور کے دونوں کنٹونمنٹ بورڈز میں 19 میں سے 15 وارڈز پر ن لیگ کامیاب ہو گئی۔ راولپنڈی میں بھی اس نے میدان مار لیا۔ ملتان میں 10 میں سے 9 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ پی ٹی آئی کوئی سیٹ نہ جیت سکی۔ گوجرانوالہ میں پی ٹی آئی نے 10 میں سے 6 نشستیں جیتیں۔۔
لاہور کے دونوں کنٹونمنٹ بورڈز میں 19وارڈز میں سے 15 وارڈز پر ن لیگ کامیاب ہو گئی۔ لاہور کینٹ بورڈ اور والٹن کینٹ بورڈ میں مجموعی طور پر 20 وارڈز ہیں لیکن والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے وارڈ نمبر 7 کے امیدوار صداقت محمود بٹ کے انتقال کے باعث پولنگ کا عمل ملتوی کر دیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر دونوں بورڈز کے 19وارڈز میں الیکشن ہوا اور 249 امیدوارو ں کے درمیان مقابلہ ہوا۔لاہور کینٹ بورڈ کے 10میں سے 6 وارڈ زپر مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی صرف تین وارڈز میں جیت سکی،ایک وارڈ میں آزاد امیدوار کامیاب رہا۔
ملتان میں تحریک انصاف ایک بھی سیٹ نہ جیت سکی، ن لیگ کا ایک امیدوار کامیاب ہوا۔ ملتان کینٹ کی 10 وارڈز میں سے 9 پر آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے۔
بہاولپور کی پانچوں نشستوں میں سے 2 پی ٹی آئی اور 3 ن لیگ جیت گئی۔
گوجرانوالہ میں تحریک انصاف نے میدان مار لیا۔ 10 میں سے 6 نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ ن کے 2 اور 2 آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے۔کنٹونمنٹ بورڈ اوکاڑہ کے 5 وارڈز میں سے 4 میں آزاد امیدوار جیت گئے جبکہ ایک میں پی ٹی آئی کے امیدوار نے فتح حاصل کی۔
کنٹونمنٹ بورڈ کھاریاں میں پی ٹی آئی نے دونوں سیٹیں جیت لیں۔
سیالکوٹ میں پانچ نشستوں میں سے مسلم لیگ(ن)نے تین پر کامیابی حاصل کی جبکہ دو پر پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔
حویلیاں کی 2 نشستوں میں سے ایک پی ٹی آئی اور دوسری ن لیگ کے حصے میں آئی۔
خیبرپختونخواکے تمام37وارڈزکے نتائج مکمل ہوگئے۔تحریک انصاف 18جبکہ 9آزادامیدوار کامیاب قرارپائے۔ن لیگ پانچ، پیپلزپارٹی دو سیٹوں پرجیت گئی ہے۔
عمران خان اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں یہی کہتے کہ بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ضروری ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران صرف قانون سازی کریں۔ ترقیاتی کام صرف بلدیاتی اداروں کو کرنا چاہیے۔ لیکن اب جب کہ ان کی حکومت کا چوتھا سال شروع ہو چکا ہے، ابھی تک بلدیاتی الیکشن نہیں کروا سکے۔ حال ہی میں کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن کے نتائج سامنے آئے ہیں۔۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کوشکست ہوچکی ہے۔ پنجاب میں ایک تو وزیر اعلی کی وجہ سے تحریک انصاف کا مورال نیچے آیا ہے دوسرا ملتان میں بھی اس کے سرکردہ لیڈروں کی من مانیوں کی وجہ سے ملتان میں ان کا مکمل طور پر صفایا ہو گیا۔
بہاول پور حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے مگر وہ ایک سیٹ بھی نہ نکال پائی۔
مرکز اور تین صوبوں میں حکومت کرنے والی جماعت اس الیکشن میں اچھی پوزیشن نہیں لے سکی۔
ایک پہلو یہ بھی قابل ذکر ہے کہ عوام نے سیاسی جماعتوں کو رد کرتے ہوئے آزاد امیدواروں کو ووٹ دئیے۔ عوام تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف کے لیے کئی سبق چھپے ہیں۔ اگر صورتحال یہی رہی تو بلدیاتی انتخابات میں بدترین شکست دیوار پر لکھی ہوئی ہے۔
کچھ حلقے حکومت کی ناکامی کے سبب اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ شاید حکومت بلدیاتی الیکشن کرائے گی ہی نہیں۔۔۔ وہ تو شروع دن سے الیکشن سے فرار چاہتے تھے اور سپریم کورٹ کی وجہ سے مجبوراً راضی ہوئے تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت بلدیاتی الیکشن سے پہلے مثبت پالیسیاں لے آتی ہے یا پھر بلدیاتی الیکشن میں بھی شکست (خدانخواستہ) اس کا مقدر بنتی ہے۔ آئندہ بلدیاتی الیکشن اس حکومت کے لیے واقعی سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain