ملک منظور احمد
دنیا پر گزشتہ 300سالوں کے دوران مغربی قوتوں کاغلبہ رہا ہے۔ پہلے برطانیہ نے تقریباً پوری دنیا پر 200سال تک بلا شراکت غیرے حکمرانی کی اور پھر اس کے بعد جنگ عظیم دوئم کے بعد گزشتہ 76سالوں سے امریکہ نے دنیا پر اپنی حکمرانی کا سکہ جمایا،جنگ عظیم دوئم سے پہلے تو مغربی قوتوں نے دنیا میں سر عام دنیا کی کمزور قوموں کو محکوم بنا رکھا تھا اور ان کمزور اور غریب ممالک جن میں بر صغیر پاک و ہند بھی شامل تھا اس کے رہنے والے مغربی ممالک کے غلام کہلاتے تھے۔جنگ عظیم دوئم کے بعد سے یہ سلسلہ تو ختم کر دیا گیا لیکن مغربی ممالک کی حکمرانہ ذہنیت آج بھی بد ل نہیں سکی ہے۔کسی بھی شعبے کے حوالے سے بات کر لی جائے مغربی دنیا بطورمجموعی ترقی پذیر اور غریب ممالک کو اپنی حاکمیت سے باہر نہیں نکلنے دینا چاہتی ہے اور یہ بات میں ایسے ہی نہیں کر رہا ہوں بلکہ بے شمار مثالیں اس حوالے سے ہمارے پاس موجود ہیں جن سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔امریکہ نے 90ء کی دہائی میں پاکستان سے رقم کی وصولی کے باوجود پاکستان کو ایف 16طیارے دینے سے صاف انکار کر دیا،اور صرف یہ 90کی دہائی کی بات نہیں ہے بلکہ آج بھی امریکہ نے پاکستان سے رقم وصول کرنے کے با وجود پاکستان کے ہیلی کاپٹر روک رکھے ہیں اور فراہم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔
اسی طرح فرانس کی جانب سے فاٹف کے اندر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے معاملہ کی مخالفت ہو یا پھر حال ہی میں انگلینڈ اور نیو زی لینڈ کی جانب سے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کے یکے بعد دیگرے واقعات، پاکستان کی جانب مغرب کے دوہرے معیار کو بار بار واضح کرتے ہیں۔مغرب کی جانب سے بھی ترقی پذیر ممالک اور خصوصا ً پاکستان کے ساتھ دوہرا معیار ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جن مغربی ممالک کو ہم اپنا دوست سمجھتے ہیں یا پھر ان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں وہ اپنا مفاد نکلنے کے بعد ہمارے ساتھ کیسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں یہ ہمارے لیے سبق ہونا چاہیے۔پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی جنگ کا ساتھ دیا،جس جنگ سے ہمارا براہ راست کوئی تعلق بھی نہیں اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،نتیجہ کیا ہو ا کہ افغان جنگ ہمارے ملک میں آگئی گلی گلی میں خود کش دھماکے ہوئے،80ہزار شہریوں اور 150ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا اور آج جنگ کے خاتمے کے بعد سپر پاور امریکہ کا صدر ہمارے وزیر اعظم کو ایک فون کا ل کرنے کا روادار بھی نہیں ہے۔یہی رویہ مغربی ممالک کی جانب سے کھیل کے میدان میں بھی ہمارے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے۔پاکستان میں 2009ء میں سر لنکا کی ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں 6سال تک کرکٹ سمیت کوئی بھی کھیل انٹر نیشنل لیول پر نہیں کھیلا جاسکا لیکن پھر حکومت پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتھک کا وش سے 6برس کے وقفے کے بعد 2015ء میں پاکستان میں زمبابوے کی ٹیم نے دورہ کیا اور پاکستان میں کھیلوں کے دروازے کھلنا شروع ہوئے لیکن اب ایک بار پھر پاکستان میں سیکورٹی صورتحال میں واضح بہتری کے باوجود پاکستان میں بین الا قوامی کھیلوں کا راستہ بند کیا جا رہا ہے اور ایک بار پھر مغربی دنیا اس کھیل میں پیش پیش ہے۔
نیو زی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان پہنچی،یہاں پر پانچ دن تک رہنے اور پریکٹس کرنے کے باوجود میچ شروع ہونے سے کچھ لمحے پہلے دورہ کینسل کرکے واپس چلتی بنی،جبکہ اس کے بعد انگلینڈ کی ٹیم بھی نیو زی لینڈ کی پیروی کرتے ہوئے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔جبکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ آسٹریلیا کا کرکٹ بورڈ بھی دورہ پاکستان کے حوالے سے یہی فیصلہ کرے گا۔نیو زی لینڈ کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ انہیں یہ اطلا عات موصول ہوئیں ہیں کہ پاکستان میں ان کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا جاسکتا ہے اس لیے انہوں نے یہ دورہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیاجبکہ انگلینڈ نے کھلا ڑیوں کے اوپر ذہنی دباؤ آنے کے خطرے کے پیش نظر دورہ پاکستان منسوخ کیا ہے جو کہ سیکورٹی کے بہانے سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ،برطانیہ،آسٹریلیا،کینیڈا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل انٹیلی جنس گروپ فا ئیو آئیز (five eyes) کی جانب سے نیوزی لینڈ کو یہ اطلا ع دی گئی کہ نیو زی لینڈ کی ٹیم خطرے میں ہے اور سب جانتے ہیں کہ فائیو آئیز گروپ کا روح رواں امریکہ ہی ہے اس لیے اگر یہ سمجھا جائے کہ امریکہ شاید اب پاکستان سے سقوط افغانستان کا بدلہ لینے پر اتر آیا ہے اور آنے والے دنوں میں ہمیں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف مزید انتقامی کار روائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔وفاقی وزیر اطلا عات اور نشریات فواد چوہدری نے تو واضح طور پر کہا ہے کہ جب امریکہ کو ابسولیو ٹلی ناٹ (absolutley not) کہیں گے تو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔بہر حال پاکستان کے لیے بطور ملک آنے والے دنوں میں مشکلا ت میں اضافہ ہو تا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔یہاں پر سوال یہ بھی بنتا ہے کہ پاکستانی کرکٹ کو کیوں تواتر سے نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ کرکٹ کا کھیل پاکستانی قوم کے لیے جذباتی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ قوم کے جذبات اس کھیل سے جڑے ہیں اس لیے نشانہ دراصل کرکٹ کو نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے جذبات کو بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے نو منتخب چیئرمین رمیز راجہ نے مستقبل کے حوالے سے اپنا پلان بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آئی سی سی میں ویسٹرن بلاک کے مقابلے میں ایشین بلاک کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ بہتر پلان ہے لیکن کتنا قابل عمل ثابت ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔پاکستان کرکٹ ٹیم برطانیہ اور نیوزی لینڈ کی جانب سے اس ہتک آمیز سلوک کے بعدسخت جواب اسی انداز میں دے سکتی ہے کہ آئندہ ماہ عرب امارات میں شروع ہو نے والے ٹی 20کرکٹ عالمی کپ کو جیت کر دکھائے اور دنیا کو پیغام دے کہ ہمیں کسی صورت تنہا نہیں کیا جاسکتا ہے اور ہمارے ساتھ تعلقات رکھنا ان کے مفاد میں ہے اوربُعدالمشرقین پیدا کرناخود پاکستانی کرکٹ مخالف قوتوں کے لئے گھاٹے اورخسارے کا سودا ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭