اسرار ایوب
شاید آپ کے ذہن میں کبھی یہ بات نہ آئی ہولیکن دنیا میں غالباً ایک ہی حکومت ایسی ہے جو اپنے نام کے ساتھ ”آزاد“لکھتی ہے اور وہ ہے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر،شاید اسی لیے یہ مادر پدر آزاد ہے اور اسے پوچھنے والاکوئی نہیں۔ہو سکتا ہے آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ ”آزاد“ حکومت کے عہدیداران اور افسران اپنی تنخواہ و مراعات کے تعین کے لئے پاکستان کے جس صوبے سے برابری کرتے ہیں وہ پنجاب ہے جس کی آبادی 11کروڑ اور بجٹ 2کھرب 653ارب ہے جبکہ آزاد کشمیر کی آبادی صرف40لاکھ اور بجٹ فقط 121ارب روپئے ہے۔ لیکن اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ برابری”ظاہری“ ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ انتظامی ڈھانچے کے اعتبار سے آزادکشمیرپنجاب سے بھی آگے نکل چکا ہے، مثلاً پنجاب کے 9ڈویژن ہیں جنہیں صوبے کی کل آبادی پر تقسیم کیا جائے تو فی ڈویژن آبادی کا تناست 1کروڑ 22لاکھ بنتا ہے جبکہ آزادکشمیر کے 3ڈویژن ہیں یعنی یہاں فی ڈویژن آبادی کی شرح13لاکھ بنتی ہے۔ پنجاب کے 36اضلاع ہیں جبکہ آزادکشمیر کے 10ہیں یعنی پنجاب کی فی ضلع اوسط آبادی 30لاکھ 55ہزار اور آزادکشمیر کی 4لاکھ ہے۔ سیدھے لفظوں میں یوں کہیے کہ ایک طرف 11کروڑ کی آبادی پر 9کمشنر اور 36ڈپٹی کمشنر جبکہ دوسری جانب40لاکھ لوگوں پر 3کمشنر اور 10ڈپٹی کمشنر ہیں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ نئے پاکستان کے بعد اب نیا آزادکشمیر بھی بننا شروع ہو گیا ہے چناچہ پاکستان تحریکِ انصاف نے آزادکشمیر کی حکومت سنبھالتے ہی آزادکشمیر کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری صاحبان کی تعداد 2سے بڑھا کر 4کر دی جبکہ پنجاب میں یہ تعداد 3ہے۔جو2 نئے ”اے سی ایس“ بنائے گئے اُن کے پاس فقط ایک ایک محکمہ ہے(جس کا سربراہ دراصل ایک سیکریٹری ہوتا ہے)، اس اقدام کی مثال پنجاب تو کیا کسی بھی صوبے میں نہیں ملتی،اگر یہی ہے”نیا آزاد“کشمیر تو ”نئے“ آزادکشمیرکے قیام پر عمران خان اور اُن کی پوری ٹیم کو بہت بہت مبارکباد۔
پنجاب کے ساتھ فی الواقعہ برابری کی جائے توآپ خود ہی فرمائیے کہ آزادکشمیرکی آبادی کیا ڈیڑھ ضلع کے برابر بھی بنتی ہے؟ ڈیڑھ نہ سہی تین اضلاع رکھ لو، اور تھا بھی یہی کہ آزادکشمیرکے تین ڈویژن (مظفرآباد، میرپور اور پونچھ) دراصل تین اضلاع ہوا کرتے تھے۔بظاہر ”اوور سمارٹ“ عوام سمجھتے ہیں کہ ان3 اضلاع کو 3 ڈویژنوں میں تبدیل کر کے10اضلاع میں اس کے فائدے کے لئے تقسیم کیا گیالیکن سچ تو یہی ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا کہ نئی نئی آسامیاں تخلیق کر کے نئے نئے گریڈ لئے جائیں ورنہ میری عمر کے لوگ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب آزادکشمیر کے تین ڈویژن نہیں بلکہ تین اضلاع ہوا کرتے تھے تو حکومت کی کارگزاری آج سے کہیں بہتر ہوا کرتی تھی۔
مشہور تو یہ ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی بہت تیز ہے لیکن آزادکشمیر کے افسران نے parity with punjab کی اصول کو اس ہوشیاری سے استعمال کیا ہے کہ پنجاب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، لگتا ہے کہ اب پنجاب کے افسران کو ”پیریٹی وِد آزادکشمیر“ کی حکمتِ عملی اختیار کرنی پڑے گی۔
ایک مثال اوردیکھئے کہ آزادکشمیر کا چیف سیکریٹری گریڈ21کا ”سی ایس پی“آفیسر ہوتا ہے لیکن اس کے ماتحت کام کرنے والے آزادکشمیر کے اپنے بیوروکریٹس میں سے پانچ کا گریڈ22ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس بھی گریڈ21کا سی ایس پی آفیسر ہے لیکن اس کے ماتحت کام کرنے والے آزادکشمیر پولیس کے ایک افسر کو بھی حکومتِ آزادکشمیر نے گریڈ 22دے رکھا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادکشمیر کے بجٹ میں ان افسران کے لئے گریڈ 22کی کوئی منظور شدہ آسامی سرے سے ہے ہی نہیں چناچہ ان کے ماورائے بجٹ گریڈ کو ”پرسنل گریڈ“کا نام دے کر منظور کر لیا گیا۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات بھی حکومتِ پاکستان کا افسر ہے جس کا گریڈ20 ہے جبکہ ماتحت سیکریٹری صاحبان میں سے کئی گریڈ21 کے ہیں۔ اس سب کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کے وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر خان کو جاتا ہے جن سے توقع تو یہ تھی کہ آزادکشمیر کے بہترین وزیرِ اعظم ثابت ہوں گے لیکن وہ بدترین ثابت ہوئے۔
ایک نمونہ اور ملاحظہ فرمائیے۔ ن لیگ کی حکومت جو حال ہی میں فارغ ہوئی جاتے جاتے اسمبلی ممبران کی پنشن میں بھی جی بھر کر اضافہ کر گئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسمبلی ممبران کو پنشن ملتی کہاں ہے جو اس میں اضافہ کیا گیا؟کہیں اور ملتی ہے یا نہیں لیکن ”آزاد“حکومت میں ضرور ملتی ہے۔یہ نومبر 2005کی بات ہے جب ”آزاد“حکومت کی کابینہ نے اسمبلی ممبران کے حق میں پنشن کی منظوری کا بل قانون ساز اسمبلی میں پیش کیے جانے سے”اصولی“ اتفاق کیا، اس سے ایک ہی مہینہ پہلے(اکتوبر 2005میں) آزاد کشمیراپنی تاریخ کے بدترین زلزلے کی شدید ترین لپیٹ میں آیا،یعنی کابینہ نے جب یہ بل منظور کیا ابھی سارے کے سارے زلزلہ زدگان کی لاشیں بھی ملبے سے نہیں نکالی جا سکی تھیں۔جنوری 2006میں اس بل کو حکومت اور اپوزیشن نے مشترکہ طور پر پاس کیا جب زلزلے کے ہزاروں متاثرین روکھی سوکھی روٹی اور پھٹے پرانے گرم کپڑوں کو بھی ترس رہی تھے۔جون 2008میں اس بل کو منسوخ کر کے ازسرِنو پاس کیا گیا تاکہ اسے مزید ”سازگار“ بنایا جا سکے۔ اس بل کو پاس کرنے کے جواز میں دنیا کی جس اسمبلی کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا وہ مقبوضہ کشمیر کی ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اسمبلی ایسی تھی ہی نہیں جس کے ممبران پنشن لیتے ہوں۔
یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی اس اسمبلی کو آزادکشمیر کے اسمبلی ممبران کٹھ پتلی کہہ کر پکارتے ہیں؟یہی نہیں بلکہ ”غلام“کشمیر کی”کٹھ پتلی“ اسمبلی کو بنیاد بنا کر ”آزاد“کشمیر کی”خود مختار“ اسمبلی نے اپنے حق میں پنشن کا جو قانون منظور کیا اسے جنوری 2003سے نافذالعمل قرار دیا گیاتاکہ ممبران کو پچھلے برسوں کی پنشن بھی ملے،اسے کہتے ہیں مارنے کے ساتھ ساتھ بے عزت بھی کرنا۔کیا اسی لئے ”آزاد“ کشمیر کو تحریکِ آزادیء کشمیر کا بیس کیمپ قرار دیا جاتا ہے؟
سید ضمیر جعفری (مرحوم) نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ
شوق سے نورِ نظر لختِ جگر پیدا کرو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
حضرتِ اقبال کا شاہین کب کا اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭