سید سجاد حسین بخاری
موجودہ اسمبلی کی مدت حساب کتاب کے مطابق12اکتوبر2023ء کو نئے الیکشن ہوں گے اورخدانخواستہ اگر کوئی ایسی پیشرفت ہوگئیتو نگران حکومت مزید وقت بھی لے سکتی ہے مگر ملک بھر میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ موجودہ حکومت عام انتخابات نومبر 2022ء میں کرانا چاہتی ہے جس کیلئے انہوں نے اپنا ہوم ورک بھی شروع کردیا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن نے 26جولائی 2018ء کو ہی اپنی شکست کے بعد عمران خان کی فتح کو جعلی قرار دے کر دوبارہ عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا تھا۔ سب سے پہلے مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کے خلاف آواز بلند کی پھر بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہوگئی، پھر موجودہ اپوزیشن نے پی ڈی ایم کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بھی بنادیا اور اس پلیٹ فارم پر اپوزیشن کو ضمنی انتخابات میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ جب بلاول بھٹو کو مسلم لیگ (ن) نے شوکاز دیا تو وہ الگ ہوگئے اور پھر پی ڈی ایم زوال پذیر ہوناشروع ہوگئی۔ پی ڈی ایم کی تشکیل اور کامیابیوں پر ایک نظر ڈالیں تو مسلم لیگ (ن) کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے اور وہ بھی مریم نواز کو کیونکہ شہبازشریف کو مزاحمتی سیاست میں آگے نہیں آنے دیا گیا لہٰذا مریم نواز نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے خوب فائدہ اُٹھایا اور یہاں تک کہ انہوں نے اپنی لیڈرشپ کو تسلیم کرانے کے علاوہ اپنے والد میاں نوازشریف کے ووٹ بینک کو بھی سنبھال کررکھا بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا اور اس وقت پاکستان میں مریم نواز مزاحمتی سیاست کی واحد لیڈر ہیں انہوں نے دل کھول کر اپنے والد کے بیانیے کو آگے بڑھایا ہے حالانکہ پی ڈی ایم کے علاوہ بعض مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں نے بھی محسوس کیا کہ مریم نواز تو بھارتی اور امریکی ایجنڈے پر کام کررہی ہیں جبکہ اسی نقطے پر مسلم لیگ (ن) دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ مزاحمت کی سیاست نوازشریف اور مریم نواز جبکہ مفاہمت کیلئے شہبازشریف اور ان کے چند رفقاء کار مگر موجودہ حالات میں ملک کی مقتدر قوتوں نے نوازشریف اور مریم نواز کی سیاست کو پاکستان میں فی الحال ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ شہبازشریف کیلئے کچھ جگہ باقی رکھی ہے۔
اب اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کو بنیاد بناکر ملک میں عام انتخابات ایک سال قبل کرانے کی نہ صرف باتیں ہورہی ہیں بلکہ اب تو مقتدر قوتوں نے 2022ء کو انتخابات کا سال قرار دے دیا ہے۔ عمران خان کی حکومت پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو صرف ایک بات نظر آتی ہے کہ جو وعدے اور دعوے عمران خان نے کئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے، معاشی صورتحال ہے کہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی، وزرائے خزانہ تین بار تبدیل ہوئے، متعدد وفاقی سیکرٹریز اور وزراء کے قلمدان بھی تبدیل ہوئے مگر معیشت کی صورتحال بہتر نہ ہوسکی، نہ ڈالر، نہ مہنگائی قابو میں آئی، نہ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، نہ ملازمتیں، نہ گھر بنائے گئے، بجلی، گیس ندارد، پٹرول وڈیزل کی قیمتوں میں ہر 15دن بعد اضافہ، گندم کی فصل ریکارڈ پیدا ہونے کے باوجود بیرون ملک سے گندم اور چینی منگوائی جارہی ہے، آٹا ابھی سے مہنگا ہونا شروع ہوگیا ہے حالانکہ گندم وافر مقدار میں موجود ہے۔
معیشت کی بہتری کیلئے عمران خان اور ان کی ٹیم نے بے تحاشا زور لگایا مگر معیشت ٹھیک نہ ہوسکی۔ متعدد مرتبہ عمران خان نے خود ہی مایوسی کا اظہار کیا اور برباد معیشت کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر ڈال دی مگر ایک کام عمران خان نے اچھا کیا کہ اعدادوشمار میں ہیرا پھیری نہیں کی، صحیح صورتحال سے قوم کو آگاہ رکھا اور قرض وقت پر اُتارنے شروع کئے۔ اس کا فائدہ اتنا ہوا کہ معیشت اصل حالت میں سنبھلتی رہی اور بالآخر معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی تو ہوگئی مگر عام پاکستانی کو اس کا فائدہ نہ ہوا حالانکہ عمران حکومت کیلئے یہ بہت ہی آسان نسخہ تھا کہ وہ بھی شریف برادران کی طرح قرضے لیکر عارضی طور پر ڈالر، تیل اور اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں استحکام رکھتے مگر عمران حکومت نے ایسا نہ کیا۔ اس وقت بظاہر معیشت اگرچہ مضبوط اور مستحکم ہے مگر غریب مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ مردہ ادارے فعال نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین کو نکال دیا گیا، ایک بھی نئی ملازمت نہ ملی۔ معیشت کے علاوہ سیاسی طور پر بھی عمران خان کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر وزیراعظم کی کُرسی پر انہیں بٹھا دیا گیا ہے جن اصلاحات کا عمران خان نے وعدہ کیا تھا اس کیلئے قانون سازی ضروری ہے مگر عمران خان کی حکومت اسمبلی میں نئی قانون سازی نہیں کرسکتی کیونکہ ان کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ اسی طرح کسی بھی قانون میں ترمیم لانے کیلئے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے پاس قطعاً نہیں ہے لہٰذا عمران خان نہ اپنے وعدے پورے کرسکتے ہیں، نہ معیشت بہتر کرسکتے ہیں اور نہ ہی ملک میں نئے صوبے خصوصاً جنوبی پنجاب بناسکتے ہیں، وجہ صرف اسمبلیوں میں واضح اکثریت کا نہ ہونا ہے اور 3سال تک عمران خان نے بہت کوشش کی کہ اپوزیشن کے ممبران کو توڑ کر اپنے ساتھ ملایا جائے وہ بھی نہ ہوسکا اور گزشتہ 3سالوں میں سب سے بڑا دھچکا سینٹ کے انتخابات میں لگا کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے ہونے کے باوجود گیلانی کامیاب ہوگئے۔
گیلانی کی قومی اسمبلی میں کامیابی وزیراعظم پر عدم اعتماد تھا جس کا تقاضا تھا کہ وزیراعظم اسی وقت مستعفی ہوجائیں۔ واقفان حال نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عمران خان نے مقتدر قوتوں کو یہ پیشکش کردی تھی مگر انہوں نے وزیراعظم کو منع کیا اور چیئرمین سینٹ کی کامیابی کی گارنٹی دی تب جاکر وزیراعظم نے اگلے دن اعتماد کا ووٹ لیا مگر اس وقت ملکی صورتحال سے زیادہ بین الاقوامی صورتحال بڑی تشویشناک ہے۔ حکومت اسمبلیوں سے چند ایک آئینی ترامیم کروانا چاہتی ہے مگر دوتہائی اکثریت نہیں ہے۔ کچھ نئے قوانین بنانا چاہتی ہے پھر بھی مشکلات ہیں۔ خطے کی تازہ ترین صورتحال کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت ہو جس کے پاس دوتہائی اکثریت ہونی چاہیے تاکہ وہ عالمی قوتوں کے مقابلے کیلئے بروقت اور ٹھوس فیصلے کرسکے لہٰذا ان حالات وواقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے مقتدر قوتوں اور عمران خان نے مقررہ مدت سے ایک سال قبل عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ 2022ء کی آخری سہ ماہی میں متوقع تو ہے مگر اصل گنتی خدا کی ہوتی ہے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭