سید سجاد حسین بخاری
اخبار کی لیڈ ہے کہ ”کرکٹ میچز منسوخی نومور کی قیمت“ (Do more) ڈومور کا جملہ پرویز مشرف دور کی ایجاد ہے۔ جس کی تاریخی حیثیت ہے اور ”نومور“ کا جملہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہا اور وہ بھی اقتدار میں آنے سے پہلے۔ امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر طاقت ہے جبکہ دنیا میں امریکہ کے علاوہ فی الحال ایسا ایک بھی ملک نہیں ہے جو سپر طاقت بننے کی شرائط/لوازمات پورے کرتا ہو۔ مقابلے میں روس تھا وہ قصہ پارینہ بن چکا۔ جرمنی نے 2030ء میں سپرطاقت بننے کا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے۔ چین بڑی تیزی سے سپرطاقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے مگر امریکہ اپنی بھرپور طاقت کے ذریعے چین کا گھیراؤ کئے ہوئے ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ 2025ء تک امریکہ چین کو سپر پاور بننے دیتا ہے یا نہیں، تاہم چین سپر طاقت کی شاہراہ پر فل سپیڈ سے جا رہا ہے اور سفر بھی بہت کم رہ گیا۔ اگر کوئی حادثہ نہ ہوا تو چین منزل تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔ ڈومور اور نومور کی آوازیں ہمارے ہوش سنبھالنے کی ہیں اور ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے نومور کرنے والوں کا انجام دیکھا ہے۔ تیسری دنیا کے سیاسی رہنماؤں پر آپ ایک نظر ڈالیں تو سب کچھ آپ پر واضح ہو جائے گا۔ بھٹو دور سے بات کا آغاز کرتے ہیں اس سے قبل صدر ایوب اور اس سے پہلے لیاقت علی خان کا قتل اور ایوب خان کو اقتدار سے ہٹانے کی بات ایک تاریخ ہے جس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر بھٹو دور کے تو ہم خود گواہ ہیں کہ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور وزیراعظم بھی بن گئے تو انہوں نے امریکہ اور یورپ کو بڑا آسان لیا اور کمال یہ کیا کہ تیسری دنیا کا نعرہ لگا دیا۔ اپنی اسلامی اقوام متحدہ، اپنا اسلامی ورلڈ بینک اور امریکہ کو سفید ہاتھی قرار دے دیا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ تمام عرب ممالک کو اکٹھا کرلیا اور انہیں تیل بند کرنے کا سبق پڑھایا۔ شاہ فیصل شہید نے جب امریکہ کا تیل بند کیا تو فراٹے بھرتی ہوئی امریکی گاڑیاں سڑکوں پر رک گئیں۔ دنیا بھر کے میڈیا نے وہ مناظر شائع کئے۔ امریکہ کی جگ ہنسائی تو ہوئی مگر ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، یاسر عرفات اور کرنل قذافی کا انجام تاریخ کے اوراق پر موجود ہے۔ بھٹو کے بعد ضیاء الحق ڈومور کی تعمیل کرتے کرتے بالآخر تھک گئے اور انہوں نے بھی افغانستان کے مسئلہ پر نومور کا نعرہ نہیں صرف ایک لائن لکھی تھی حالانکہ اس وقت کے وزیر خارجہ زین نورانی نے ضیاء الحق کو مشورہ بھی دیا تھا مگر ضیاء الحق کی قسمت کہ انہوں نے سولو فلائیٹ کا فیصلہ کرلیا اور پھر انجام ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ امریکہ یقینا ایک سپرطاقت ہے وہ کسی صورت اپنے زیر اثر کسی ملک کے حکمران کو سولو فلائیٹ نہیں کرنے دیتا۔ ضیاء الحق کے بعد بینظیر اور نوازشریف آپ کے سامنے ہیں۔
پرویزمشرف نے امریکہ کی بڑی تابعداری کی حتیٰ کہ انہیں تو کہا جاتا تھا کہ مشرف امریکہ کی ایک کال پر لیٹ گیا اور یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے مشرف کو خوب استعمال کیا خصوصاً افغانستان کی صورتحال کے بارے میں مگر بعد میں امریکہ نے مشرف پر ڈبل گیم کرنے کا الزام لگا دیا۔ اس اثناء میں نوازشریف کی امریکہ سے گوٹی فٹ ہوگئی تھی۔ امریکہ کا بڑا مقصد پاک فوج کو کمزور کرنا تھا اور وہ کام نوازشریف کو سونپا گیا جو نوازشریف اور مریم نواز بڑے احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے بھی جب ملکی مفاد میں چند اہم فیصلے کئے جو امریکہ کی مرضی کے خلاف تھے تو مشرف بھی مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیئے گئے اور آج وہ دیارغیر میں بے یارومددگار پڑے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بھٹو کے بعد عمران خان دوسرا سرپھرا وزیراعظم ہے جو پوری دنیا کو عموماً اور امریکہ کو خصوصاً نومور سناتا ہے۔ کیا امریکہ یہ برداشت کرے گا؟ پاکستان بڑا خوش ہے کہ چین، روس، ترکی اور ایران کا خطے میں ایک طاقتور بلاک بن گیا ہے، اب امریکہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو یہ دیوانے کا خواب ہوسکتا ہے۔ اس بلاک سے پہلے ایک آر سی ڈی ایران، ترکی اور پاکستان نے بنایا تھا وہ کہاں گیا؟ ہم خوش ہیں کہ چین کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ سونے اور ڈالر کے ذخائر ہیں، یہ سچ ہے مگر صرف پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا اور پھر چین کو اس کے اپنے ہمسایوں سے پھنسوایا جا رہا ہے۔ شمالی کوریا اور بھارت سرفہرست ہیں۔
جاپان، آسٹریلیا اور دیگر چھوٹے ممالک کے علاوہ پورے یورپ کو امریکہ نے چین کے سامنے لاکھڑا کیا ہے اور امریکہ کی فی الحال ایک ہی خواہش ہے کہ چین کی ترقی کو روکا جائے۔ اس بابت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر ایک بات طے ہے کہ امریکہ آسانی سے چین کو سپرطاقت نہیں بننے دے گا اس کیلئے خواہ امریکہ کو جو قیمت چکانا پڑے۔ جہاں تک ہمارے خطے کا تعلق ہے اس میں چین، ترکی، روس اور ایران کی صف بندی تو ہو چکی ہے مگر پاکستان کس طرف ہے؟ امریکی صدر نے صرف ایک فون نہیں کیا تو ہمیں نیند نہیں آرہی اور اسے ہم بے عزتی سمجھ رہے ہیں حالانکہ امریکی حکومت نے عمران حکومت کو اسی دن اپنے مخالفین کی فہرست میں لکھ دیا تھا جب عمران خان نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا تھا۔ تفصیل دینے کی گنجائش نہیں ہے صرف ایک جملہ عرض کرونگا کہ بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک ایک رول ماڈل تھی اسی طرح امریکہ اب کئی طریقوں سے عمران حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرے گا، لہٰذا حکومت یہ بھول جائے کہ امریکہ آرام سے بیٹھے گا، پاکستان کو نومور کی قیمت چکانا پڑے گی۔ اس کی درجنوں صورتیں ہو سکتی ہیں لہٰذا ہمیں گھبرانے کے بجائے کسی بلاک میں شامل ہونے کا جلد فیصلہ کرنا چاہیے بلکہ کسی مجوزہ بلاک کی تشکیل کے سلسلے میں ہمیں ایک بڑا اور مرکزی کرداراداکرناچاہیے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭