وزیر احمد جوگیزئی
مسلمان ہونے کے ناطے علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود قرآ ن شریف میں کہا ہے کہ ہم نے انسان بنایا۔اور اس کو زبان بولنا سیکھائی اور پھر اسی زبان کے ذریعے علم دیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔اور علم انسان کو انسان بناتا ہے۔اگر انسان علم حاصل کرنے کے بعد اچھا انسان بن جاتا ہے تو یقینی طور پر اچھا مسلمان بھی ہو گا اور کرشماتی طور پر اس کو کامیا بیاں بھی ملیں گی۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم انسان کو پہلے مسلمان بناتے ہیں اور پھر اس کے بعد کچھ اور بنانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ در حقیقت ہونا اس کے الٹ چاہیے۔قران شریف میں واضح طور پر انسان کی بات کی گئی ہے نہ کہ مسلمان کی قرآ ن شریف انسان کو مخاطب کرکے اسے تعلیمات دیتا ہے اور پھر ان تعلیمات کے زیر اثر جب مسلمان بنتا ہے تو طارق بن زیاد بھی بنتا ہے،خالد بن ولید بھی بنتا ہے اور ارطغرل غازی بھی بنتا ہے۔اصل میں مسلمان بننا اتنا آسان کام نہیں ہے۔
ایک مسلمان کو بے خوف ہونا چاہیے اور ڈٹ کر برائی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ایسی برائیوں کا مقابلہ مسلمان کرتا ہے جو کہ انسان کی نشو نما اور بہبود کے خلاف ہوں جو مسلمان ڈر جاتا ہے وہ ایک کمزور مسلمان ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر رحم اور مہر بانی کرے ہم سب کا شمار اسی کیٹگری کے مسلمانوں میں ہو تا ہے۔میں اپنی اس بات کو موجودہ دور اور سیاست کے زمرے میں دیکھوں تو آج کی دنیا میں ہم بطور قوم امریکہ سے مرعوب ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ امریکہ سے ڈرتے ہیں۔اور بات یہاں ختم نہیں ہو تی ہم تو اتنا ڈرتے ہیں کہ ان کے بارے میں سچ بولنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔افغانستان کے تناظر میں بات کروں تو حال ہی ہم نے دیکھا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کیا حشر ہوا ہے،اللہ کے نڈر بندوں نے 40سال کی مسلسل کوشش کے بعد افغانستان میں امن قائم کیا ہے اور حکومت حاصل کر لی ہے۔اس طویل جد و جہد کے دوران وہ ہر طرح کی آزمائش سے گزرے ہیں۔طرح طرح کی مصیبتوں اور مشکلا ت کا سامنا کیا بد ترین تذلیل اور تشدد کا سامنا بھی کیا اس سب کے بعد انسان یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ان میں ایسی کیا بات تھی کہ وہ دنیا کی طا قت ور ترین قوتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے؟ ان میں آخر کچھ تو ایسی بات ہو گی کہ ایسا ممکن ہوا جو کہ بظاہر ناممکن تھا اس کا جواب انسان کے ذہن میں یہی آتا ہے کہ یہ لوگ سچے مسلمان ہیں اور ایمان کی طاقت سے لبریز ہیں اور کسی طرح سے بھی کمزور مسلمان نہیں ہیں۔یہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔افغان قوم اس لحاظ سے شاید دنیا کی نرالی قوم ہے کہ انھوں نے کسی بھی طرز حکومت پر اکتفا نہیں کیا ہے پہلے بادشاہت کی حکومت کا خاتمہ کیا،اس کے بعد جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کیا سوشلسٹ حکمرانوں کو بھی نہیں ٹکنے دیا گیا اور ان کو بھی افغانستان سے نکال باہر کیا۔طویل جدو جہد کے بعد جب سویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کیا گیا تو افغان عوام بلا شبہ ایک عظیم فتح سے ہمکنار ہو ئے لیکن دنیا کی سامراجی قوتوں کو افغان عوام کی فتح پسند نہیں آئی اور افغانستان کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔افغانستان کی تاریخ کے اس تاریک دور میں تحریک طالبان ابھری اور انھوں نے افغانستان کو امن دیا،استحکام دیا اور افغان عوام کو ایک بہتری کی امید دلائی لیکن اس کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا دنیا میں سوائے تین ممالک کے کسی نے ان کی حکومت کو تسلیم تک نہ کیا۔افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا ایک طرح سے دنیا سے کاٹ دیا گیا جس کا نتیجہ کیا نکلا کہ افغان سرزمین اور افغان عوام محرومیوں میں گھرتے چلے گئے اور افغان سرزمین پر ایسی قوتوں نے جنم لیا جن کو شاید جنم نہیں لینا چاہیے تھا اور انھی قوتوں کے باعث افغانستا ن میں ایک اور جنگ مسلط ہوئی۔
امریکہ نے قبضہ کیا اور اس کے بعد اس تحریک کے ارکان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ میں شاید اپنے قلم سے یہاں پر تحریر بھی نہ کر سکوں۔اس کے بعد کی کہانی بھی سب ہی جانتے ہیں امریکی نے افغانستان میں ڈالروں کا انبار لگادیا۔ایک فوج بنائی،ایک انتظامیہ تشکیل دی گئی کچھ حکمران بھی منگوائے گئے یعنی کہ حکمرانی کے جو بھی لوازمات ہوتے ہیں وہ سب پورے کیے گئے لیکن اگر کچھ نہیں کیا تو وہ یہ تھا کہ اس تمام کٹھ پتلی نظام کو افغان عوام کی حمایت اور قبو لیت بلکہ اگر ”اونر شپ“ کا لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا،نہیں دلواسکے۔دنیا کی سپر پاور اپنی طاقت کے نشے میں عوام کو کچھ سمجھتی ہی نہیں ہے اور شاید یہی سپر پاور کی سب سے بڑی غلطی ہو تی ہے جس کے باعث ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔عوام کی طاقت اور حمایت کے بغیر کو ئی بھی نظام نہیں چلایا جاسکتا ہے عوام ہی وہ بنیادی قوت ہوتی ہے جس کے اوپر ایک نظام کھڑا کیا جاتا ہے۔اس لیے کوئی بھی حکمران کتنا ہی عظیم اور طاقت ور کیوں نہ ہو عوام کی طاقت کے بغیر زیادہ دیر چل نہیں سکتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو بہر حال خلق کی آواز کو خدا کی آواز سمجھنا چاہیے۔اور افغانستان میں اس آواز کا نہ کو ئی لحاظ کیا گیا اور نہ ہی کوئی بھروسہ کیا گیا اور سامراجی قوتوں کی جانب سے اس قسم کا رویہ صرف اور صرف افغانستان کے حوالے سے روا نہیں رکھا گیا ہے بلکہ امریکہ نے ہر ترقی پذیر اور غریب ملک کے عوام کو انسان سمجھنے سے انکار کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اتنی بڑی طاقت ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں تتر بتر ہے۔اور اسی رویے کی وجہ سے امریکہ کے دنیا میں مقاصد پورے نہیں ہو پاتے ہیں۔بہرحال طالبان خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں افغانستان پر حکومت کا دوسرا موقع دیا ہے اور وہ گولی چلائے بغیر کابل میں داخل ہو گئے اور قبضہ کر لیا۔لیکن دنیا کی مقتدر قوتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ دنیا میں ایک صحیح مسلم ریاست وجود میں آئے ایک ایسی مسلم ریاست جس کا نقشہ علامہ محمد اقبال نے خطبہ الٰہ باد میں پیش کیا تھا،پاکستان کے نصیب میں تو ایسی ریاست بننا نہ تھا لیکن افغانستان اپنے نڈر عوام کی وجہ سے ایسی ریاست ضرور بن سکتا ہے۔ایک ایسی ریاست جس کے خوف سے آج امریکہ بھی نئے اتحاد بنا تا پھرتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭