علامہ محمد الیاس عطار قادری
حضرت سیدنا داتا علی ہجویری علیہ رحمۃ اللہ القوی کی ولادت باسعادت کم و بیش 400ھ میں افغانستان کے شہر غزنی میں ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان نے غزنی کے دو محلوں جلاب و ہجویر میں رہائش اختیار فرمائی اسی لئے آپ ہجویری جلابی کہلاتے ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے۔ ماہر اَنساب پیر غلام دستگیر نامی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے آپ کا شجرہئ نسب اس طرح بیان فرمایا ہے: ”حضرت مخدوم علی بن سید عثمان بن سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ (شجاع شاہ) بن سید ابوالحسن علی بن سید حسن بن سید زید بن حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی کرم اللہ وجہہ الکریم۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے والد حضرت سیدنا عثمان رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے جید عالم اور عابد و زاہد تھے۔ شاہان غزنیہ کے زمانے میں دنیا کے کونے کونے سے علماء و فضلاء، شعراء اور صوفیاء غزنی میں جمع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے غزنی علوم و فنون کا مرکز بن چکا تھا، حضرت سیدنا عثمان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہاں ر ہائش اختیار فرمائی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حسینی سادات سے تھیں، عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں، اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حسنی جمال اور حسینی کمال دونوں ہی کے جامع تھے۔ حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے ماموں کو زہد و تقویٰ کی بنا پر تاج الاولیا کے لقب سے شہرت حاصل تھی۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے جس پاکیزہ فطرت ماں کی آغوش میں پرورش پائی، ان کی زبان ذکر الٰہی میں مصروف اور دل جلوہئ حق سے سرشار رہتا تھا اسی لئے آپ نے ابتدائے عمر ہی سے بڑی محتاط اور پاکیزہ زندگی گزاری۔ آپ کو بچپن ہی سے عبادت کا شوق تھا، نیک والدین کی تربیت نے آپ کے اخلاق کو شروع ہی سے پاکیزگی کے ڈھانچے میں ڈھال دیا تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کو تعلیم کیلئے مکتب میں بٹھا دیا گیا، حروف شناسی کے بعد آپ نے قرآن پاک مکمل پڑھ لیا۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ آج کل جیسی سہولیات میسر نہ ہونے کے باوجود کئی آزمائشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے جلیل القدر ہستیوں کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان سے نہ صرف بھرپور استفادہ کیا بلکہ باطنی تربیت بھی حاصل فرمائی۔ اس نوعیت کا ایک واقعہ آپ رحمۃ اللہ علیہ خود بیان فرماتے ہیں: ایک دن میں حضرت سیدنا ابوالقاسم عبداللہ بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر تھا اور جو لطائف مجھ پر منکشف ہوئے تھے وہ میں آپ کی بارگاہ میں عرض کر رہا تھا تاکہ آپ کی ہدایات کے مطابق اپنے احوال درست کر سکوں اس لیے کہ آپ ناقد وقت تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ بہت ادب و احترام سے سن رہے تھے، میرا لڑکپن اور جوش جوانی اپنا حال بیان کرنے پر حریص بنا رہا تھا، عین اسی حالت میں میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ جو لطائف میرے اوپر گزرے ہیں شاید اس قدر لطائف ان بزرگ (یعنی حضرت سیدنا ابوالقاسم عبداللہ بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ) پر نہیں گزرے، یہی وجہ ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نہایت توجہ اور احترام سے میرے احوال سن رہے ہیں۔ حضرت سیدنا ابوالقاسم عبداللہ بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ بذریعہ کشف میرے اس خیال پر مطلع ہو گئے اور فرمایا: عزیز بیٹے! میرا یہ احترام صرف آپ کیلئے خاص نہیں بلکہ یہ تو ہر ابتدائی طالبعلم سے ہے جو بھی اپنا حال بیان کرتا ہے میں اسی احترام سے اسکے احوال سنتا ہوں۔ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا۔
ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا ابوالقاسم بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں عرض کی: شرط صحبت کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: صحبت میں ہر قسم کی آفات موجود ہیں، کیونکہ (صحبت کی سب سے بڑی آفت یہ ہے کہ) ہر ایک اپنا مطلب پورا کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ آسائش کے طالب کو صحبت سے تنہائی بہتر ہے۔ (صحبت کی آفتوں سے بچ کر فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ) بندہ اپنی خوشی کو ترک کر دے اور اپنی مشکلات میں خوشی محسوس کرے (یعنی جب بندہ اپنی خوشیوں کو چھوڑ کر مشکلات اور آزمائش پر صبر کرنا سیکھ جائے) تو ایسی صورت میں وہ صحبت سے فائدہ اٹھا سکے گا۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ عامل سنت، حرص دنیا سے کوسوں دور اور مسلمانوں کے خیرخواہ تھے اسی لئے آپ نے حضرت سیدنا خضر علی نبینا وعلیہ والصلوٰۃ والسلام سے نہ صرف ملاقات فرمائی بلکہ آپ کی صحبت میں رہ کر ظاہری و باطنی علوم حاصل فرمائے نیز آپ کی حضرت سیدنا خضر علی نبینا وعلیہ والصلوٰۃ والسلام سے بہت ہی گہری دوستی تھی۔
آپ نے جتنے بھی ممالک کا سفر فرمایا، اسکا مقصد علماء و مشائخ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اکتساب فیض کرنا اور اپنی علمی پیاس بجھانا تھا، اس مقصد کیلئے آپ نے صرف خراسان کے تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضری دی اور ان کے علم و حکمت کے پربہار گلستانوں سے گل چینی کر کے اپنا دامن بھرتے رہے۔
بزرگان دین کا معمول رہا ہے کہ دنیا و آخرت میں کامیابی کیلئے کسی مرشد کامل سے شرف بیعت ضرور حاصل فرمایا کرتے، یوں ظاہر کی تعمیر کیساتھ باطن کی ترقی کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا۔ حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ خواجہ ابوالفضل محمدبن حسن ختلی جنیدی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ آپ کا شجرہئ طریقت 9واسطوں سے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔
اللہ والوں کی زیارت اور مزارات اولیاء سے استفادہ کی غرض سے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا ایسا مجاہدہ ہے جو مشاہدے کی دولت سے نوازتا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مجاہدہ بھی حد کمال کو پہنچا دیا، تقریباً تمام عالم اسلام کی سیاحت اور وقت کے اعاظم مشائخ و صوفیہ سے اکتساب فیض کیا۔ آپ نے شام، عراق، بغداد، آذربائیجان، طبرستان، کرمان، خراسان، ماوراء النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر فرما کر بزرگوں سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
اللہ عزوجل نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو علوم ظاہری اور باطنی سے نوازا تھا اور دین اسلام کے بہت سے اسرار و رموز کا علم بھی عطا فرمایا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حصول علم کیلئے جو سفر اختیار فرمائے ان سے آپ کو کثیر مشاہدات حاصل ہوئے۔ آپ نے مخلوق خدا کی خیرخواہی کیلئے کئی گرانقدر کتب تصنیف فرمائیں جن کے نام یہ ہیں: منہاج الدین، دیوان، اسرار الخرق والمؤنات، کتاب البیان لاہل العیان، بحرالقلوب، الرعایۃ بحقوق اللہ، کتاب فنا و بقاء، شرح کلام منصور مگر افسوس! فی زمانہ آپ کی کتابوں میں سے صرف کشف المحجوب ہی بآسانی دستیاب ہے۔ آپ نے عربی اشعار پر مشتمل ایک مکمل دیوان مرتب فرمایا تھا جسے ایک شخص نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے مانگ کر لے لیا اور اس کو اپنے نام سے منسوب کر لیا، ولی کامل کی ایسی دل آزاری کے سبب وہ بے ایمان ہو کر مرا، چنانچہ آپ نے اسکے برے خاتمے کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وہ شخص جو میرا دیوان لے گیا تھا بے ایمان دنیا سے گیا۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی خوب محنت و لگن سے خدمت دین کا کام سرانجام دیا، دکھی انسانیت کو امن و سکون کا پیغام دیا اور اپنے مریدین و محبین کی دینی و دنیاوی حاجتوں کو پورا فرمایا۔ آپ کا وصال پرملال اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک 20صفر المظفر 465ھ کو ہوا۔ آپ کا مزار منبع انوار و تجلیات مرکز الاولیاء لاہور میں بھاٹی دروازے کے بیرونی حصے میں ہے، اسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الاولیاء اور داتانگر بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے فیضان کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان الہند حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز معین الدین سید حسن چشتی سنجری اجمیری علیہ رحمۃ اللہ القوی بھی ایک عرصے تک آپ کے دربار میں مقیم رہے اور منبع فیض سے گوہر مراد حاصل کرتے رہے۔
(امیراہلسنت ہیں)
٭……٭……٭