شفقت اللہ مشتاق
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے حالات بہت ہی دگرگوں تھے۔ یہودیوں کا کاروبار پر مکمل قبضہ تھا۔ جو لوگ مسلمان ہوئے تھے ان کے لئے مہاجرین مسلمانوں کی آبادکاری بہت بڑا چیلنج تھا۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نئے آنے والوں کو وہاں کے مقامی لوگ قبول نہیں کرتے اور خصوصاً ان حالات میں کہ مہاجرین ہر چیز مکہ میں چھوڑ کر یہاں آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عام آدمی کی حیثیت میں مدینہ داخل نہ ہورہے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبیؐ تھے اور اس لحاظ سے انہوں نے مدینہ ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو دعوت حق دینا تھی اور پوری دنیا کی اصلاح کا ایک قابل عمل پروگرام بھی دینا تھا۔ ایسی صورتحال میں یہ ان کی شخصیت کا بہت بڑا امتحان تھا۔ مذکورہ جملہ معاملات کو حل کرکے آپ نے ایک تو نئی ریاست کا قیام عمل میں لانا تھا اور پھر سب لوگوں کو اپنی قیادت میں کام کرنے لئے آمادہ کرنا تھا۔
یقینا مہاجرین کا بے سرو سامان یہاں آنا اور یہاں آکر آباد ہونا خانہ جنگی کو بھی جنم دے سکتا تھا۔ریاست مدینہ کے بانی نے اس عنصر کو ختم کرنے کے لئے بھائی چارہ مبنی بر اخلاص کی عمارت کی بنیاد رکھی۔ ہر مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنادیا اور یہ محض بھائی چارہ ہی نہ تھا بلکہ انصاری بھائی کی پوری جائیداد میں مہاجر بھائی کو آدھی جائیداد کا حصہ دار بنا دیا گیا اور ایسی فضا قائم کی گئی کہ اس تقسیم کو دونوں نے خوشی خوشی قبول کیا۔ یوں وسائل کی منصفانہ تقسیم کی گئی جس کی مثال کرہ ارض پر نہیں ملتی۔ قربانی، اخلاص،محبت اور یگانگت کی بھی یہ بے نظیر مثال تھی۔ ہیو اور ہیوو ناٹ کی خلیج کو جھٹ میں ختم کردیاگیا۔ مدینہ کے سب لوگوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لانے کے لئے میثاق مدینہ کو ترتیب دیا۔ اس معاہدہ کی رو سے ریاست مدینہ قائم ہوئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ریاست کے سربراہ بن گئے۔ معیشت میں استحصالی قوتوں کے خاتمے کے لئے لین دین کے معاملات مبنی بر انصاف کے اصول پر وضع کیے گئے اور جھگڑے کی شکل میں فیصلے کا اختیار آپؐ کے پاس تھا اور آپؐ کے انصاف کے ترازو میں کبھی بھی جھول نہ آتی تھی اور یوں انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہوگیا۔ یہودی اگر حق پر ہوتا تو مسلمان کے خلاف فیصلہ دیا جاتا۔اور غاصب کے ہاتھ کر روک کر عوام الناس کو پُر امن اور پُر سکون ماحول فراہم کیا گیا۔ آپؐ نے عدل و انصاف کا ایسا ماڈل پیش کیا جس کو دیکھ کر کافر بھی لا الہ الا اللہ کہنے پر مجبور ہوجاتے تھے یوں ریاست مدینہ کا قیام کسی معجزاتی تبدیلی سے کم نہ تھا۔ بغیر کسی خون خرابے کے ایک ایسی ریاست معرض وجود میں آگئی جس سے معاشرہ فوری طور پر بدل جاتا ہے۔ قوانین کا اجرا ہو جاتا ہے۔ تصورات اخلاق و کردار اور معاشرت و سیاست، تہذیب و تمدن سب بدل جاتے ہیں۔ یہ ایک عمرانی معاہدہ تھا جس کے تحت ایک جگہ کے باشندوں نے اپنی آزاد مرضی سے کسی ایک شخص کو اپنا سربراہ مان لیا تھا۔ اس ریاست کی بنیاد نسل علاقہ، زبان،قبیلہ یا معاشی و سیاسی مفادات کے کسی اشتراک پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ چند اصولوں کی حفاظت اور ان کے اجرا کے لئے یہ ریاست وجود میں آئی۔ یہ ایک جمہوری اور شورائی ریاست تھی جس سے سارے کام عوام کی فلاح کی بنیاد پر کئے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نظام کے چرچے پوری دنیا میں پھیل گئے۔
پاکستان وہ مملکت خداداد ہے جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ جس کے معرض وجود میں آتے ہی مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کو ہجرت کرنا پڑی تھی۔ شروع میں اس ریاست کے کوئی اپنے وسائل نہ تھے۔ یہاں کا معاشرہ آج بھی امیر اور غریب کے طبقات پر مشتمل ہے۔یہاں استحصالی قوتوں نے پوری طرح پنجے گاڑھ رکھے ہیں روز بروز امیر امیر تر اور غریب‘غریب تر ہو رہا ہے۔ دولت اور وسائل پر چند لوگوں کا قبضہ ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کار فرما ہے۔ جمہوریت امیروں کے ہاتھوں کی لونڈی بن چکی ہے۔ حکمران اور سرکاری ادارے مکمل طور پر عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ نے عوام کی مت مار دی ہے۔ اوپر سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے استحصال کی بدولت اس ملک کو کنگال کردیا ہے۔ مذکورہ مسائل کو ختم کرنے کے لئے کئی بیانیے منظر عام پر آئے اور بے سود ثابت ہوئے۔ مایوسی ہی مایوسی۔ پریشانی پر پریشانی۔عدم اعتماد عدم اعتماد اور عدم اعتماد۔ لیفٹ اور رائٹ کیفیت۔ ایسی کیفیت میں موجودہ وزیراعظم عمران خان کا منظر عام پر آنا اور تصور ریاست مدینہ کی بات کرنا۔ بات کی اصلیت کو پرکھنے کے لئے عقل و منطق کی ضرورت ہے اور بات رد کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مخالف قوتوں نے تو خیر کو بھی شر کہنا ہوتا ہے اور پھر ہمارے ہاں مروجہ سیاسی نظام میں منزل اقتدار ہوتی ہے اور اس کے لئے پانچ سال انتظار کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ کاش ایک لمحے کے لئے پاکستان کے مسائل کا تعصب کی عینک اتار کر جائزہ لے لیا جاتا اور پھر ریاست مدینہ کے خدوخال کو دیکھ لیا جاتا۔ تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی کہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا ہے اور ریاست مدینہ کی قیادت کا ماڈل ہی سب سے اہم حل ہے۔
اس وقت ہم سب ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور ہمیں اخوت کی مالا میں پرویا جایا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے معاشرتی عدم استحکام پیدا کردیا ہے اور آج ہیوو اور ہیوو ناٹ کی خلیج ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ریاست مدینہ کے مہاجر اور انصار کے مواخات کی بنیاد پر وسائل کو برابر تقسیم کر دیا جائے۔ہمارے ملکی اور بین الاقوامی لین دین کے معاملات میں بے انصافی اور لوٹ کھسوٹ اس حد تک ہو چکی ہے کہ پورا معاشرہ اضطراب، ہیجان اور پریشانی کا شکار ہے۔ اس ساری صورتحال کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے کہ ریاست مدینہ کی طرز پر لین دین کے معاملات مبنی بر انصاف قائم کئے جائیں۔ یہ ہے نچوڑ ریاست مدینہ کے خدوخال کا اور اجمالی خاکہ ہے ہمارے مسائل کا۔ کیا اس صورتحال میں ریاست مدینہ کے علاوہ کوئی اور بیانیہ بنتا ہے۔ ذرا سوچئے لیکن سوچنے سے پہلے تعصب کی عینک اتار لینا شرط ہے۔ اور ہر شخص کو کسی نہ کسی شرط پر کھیلنا پڑتا ہے اور میرا مشورہ ہے کہ ہمیں دنیا کے میدان پر خوشحال پاکستان کی شرط پر کھیلنا چاہیئے اور اس شرط کو جیتنے کے لئے ریاست مدینہ کی قیادت کے رول ماڈل کی ضرورت ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے اور استحصال، جبر اور دھونس دھاندلی جیسی لعنتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے شاید اسی لیے آج کے دور میں وزیراعظم پاکستان نے ریاست مدینہ کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے۔
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭