عبدالستار خان
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قائم ہوتے ہی ایک نئی بحث نے جڑ پکڑنا شروع کردیا ہے کہ افغانستان کے تعلقات اپنے پانچ ایسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کون سا رخ اختیار کرتے ہیں جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ایک تو دنیا کا وہ بڑا حصہ ہے جو طالبان کو افغانستان سے نکالنے اور پھر 20سال تک افغانستان کی سابقہ حکومتوں کو سنبھالنے کا فرض ادا کرتے رہے۔لیکن ان کی سرحدیں افغانستان سے جڑی ہوئی نہیں ہیں۔لیکن وہ پانچ ممالک جن کی سرحدیں افغانستان کی سرحد کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ان کے بدلتے حالات میں اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے۔
اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ افغانستان کے ساتھ کس قسم کے معاملات رہے ہیں۔لیکن سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ افغانستان میں طالبان نے 6اگست سے 15اگست کے دس دنوں کے دوران افغانستان کے 34صوبوں میں سے جن 26صوبوں میں اقتدار حاصل کیا ان میں کتنے صوبوں کی سرحد یں افغانستان کے پانچ ہمسایہ ممالک سے جڑی ہوئی ہیں۔افغانستان میں طالبان نے 6اگست سے 15اگست دس دنوں کے دوران افغانستان34 صوبوں میں سے جن 26صوبوں کو فتح کرلیا تھا۔ان میں سے 10صوبوں کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔ان 10صوبوں میں سے ایک صوبہ کی پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی سرحد ملتی ہے جبکہ ایک صوبے کی سرحد چین اور ازبکستان سے ملتی ہے۔ویسے تو افغانستان کے 11صوبے ایسے ہیں جن کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔چار صوبے ایسے ہیں جن کی سرحدیں ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ان میں سے ایک صوبے کی سرحد ایران سے بھی ملتی ہیں۔دو صوبے ایسے ہیں جن کی سرحدیں تاجکستان سے اور ازبکستان دونوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ویسے تاجکستان سے افغانستان کے تین صوبوں کی سرحدیں اور ازبکستان کے ساتھ دو صوبوں کی سرحدیں ملتی ہیں۔
افغانستان کا ایک صوبہ بدخشاں کی سرحد چین سے ملتی ہیں۔اسی صوبہ کی سرحد پاکستان اور تاجکستان سے ملتی ہیں۔اس کے علاوہ 9صوبے ایسے ہیں۔جن کی سرحدیں کسی ہمسایہ ملک کے ساتھ نہیں ملتی۔
افغانستان کی آبادی تقریباًتین کروڑ 86لاکھ ہے جس میں سے 2کروڑ 62لاکھ کی آبادی افغانستان کے ان صوبوں میں بستی ہے جن کی سرحدیں افغانستان کے پانچ ممالک سے ملتی ہیں۔سب سے زیادہ تعداد اور سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔جن کی تعداد ایک کروڑ سات لاکھ ہے۔ایران کی سرحدوں کے ساتھ جڑے ہوئے افغانستان کے صوبوں کی آبادی 70لاکھ ہے۔ترکمانستان کے ساتھ جڑے ہوئے صوبوں کی آبادی 46لاکھ ہے۔تاجکستان کے ساتھ جڑے ہوئے صوبوں کی آبادی 24لاکھ ہے۔ازبکستان کے ساتھ جڑے ہوئے صوبوں کی آبادی 12لاکھ ہے۔جبکہ چین کے ساتھ جڑے ہوئے صوبے کی آبادی5لاکھ ہے۔
اس صور ت حال سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ طالبان نے دس دنوں میں ان تمام صوبوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔جن کی سرحدیں ان پانچ ممالک سے ملتی ہیں۔کچھ صوبے تو ایسے ہیں جن کا کنٹرول یا تو طالبان نے چند گھنٹوں میں حاصل کرلیا یا پھر بغیر مزاحمت کے ہی قبضہ کرلیا۔کچھ صوبے تو ایسے ہیں جہاں کے یا تو انٹیلی جنس سربراہ گرفتا ر کرلئے گئے۔یا پھر انہوں نے خود ہی سرنڈر کردیا۔چین کی بات کریں تو چین طالبان کی حکومت سے کسی قسم کی محاز آرائی یا تلخی پیدا نہیں کرنا چاہتا۔لیکن چین صرف ایک ہی بات سے پریشان ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ طالبان کی حکومت میں آنے سے چین کے صوبے xingjuangمیں uygurمسلمانوں کی تحریک میں نئی پھونک نہ پڑ جائے۔چین کا افغانستان کی ایک چھوٹی سی نکر میں سرحدی ملاپ ہے جو چین اور افغانستان کو پہاڑی سلسہ واخاں Corridor کے ذریعہ ملاتا ہے۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ افغان صدارتی دستاویزات میں بدخشاں صوبے کو چین اور پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا نہیں بتاتے۔ایران کے لئے افغانستان سے امریکہ کا نکلنا ایک اچھا شگون ہے۔لیکن دوسری طرف طالبان کے آنے کے بعد فرقہ وارانہ جارحیت میں شدت ایران کو پریشان کرسکتی ہے۔ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے بیان دیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی فوجی شکست افغانستان میں امن کے ایک نئے سفر کا عندیہ ہے۔لیکن دوسری طرف افغانستان میں تبدیلی اس وقت آئی جب خود ایران میں نئے صدر کی آمد ہوئی ہے۔دوسری وجہ کرونا ہے جو ابھی تک ایران کو وہ لمحات نہیں دے سکا جس میں کچھ اور پیچیدہ معاملات کی طرف توجہ ہو۔1978میں جب افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت تھی۔تو ایران اور افغانستان حالت جنگ میں چلے گئے تھے کیونکہ طالبان نے ایرانی سفارتکار ہلاک کردیئے تھے۔ایران کی اسلامک انقلاب کے زور وشور میں 2013میں افغانستان میں سینکڑوں کی تعداد میں جنگجو تیار کئے تھے تاکہ شام اور عراق میں جنگجوون کو استعمال کیا جاسکے۔لیکن کیا اب افغانستان میں طالبان کی حکومت بننے سے ایران جنگجووں کی تلاش جاری رکھ سکے گا۔کیا افغانستان میں طالبان کے علاوہ ایسی اسلامی تنظیمیں بسیرا کرلیں گی جن کے ایران کے ساتھ واضح اختلافات ہیں۔
ایران نے 2001کے بعد لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزینوں کوپناہ دی تھی۔لیکن اب لگتا ہے کہ ایران ایسا نہیں کرے گا۔تاجکستان نے افغانستان کی پنج شیر وادی میں طالبان کے خلاف معروف ترک جنگجووں کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔اور نہ ہی پنج شیر کے ترک تاجکستان کی امید لگائے بیٹھے تھے۔تاجکستان کے طاقتور حکمران راحمون نے اشارہ دیا تھا کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیں گے۔لیکن یہ بھی واضح کیا کہ تاجکستان افغانستان کی حکومت میں طالبان کی اجارہ داری نہیں چاہتا۔بلکہ ایک ایسی حکومت چاہتا ہے جس میں افغانستان میں رہنے والے تمام ethnicگروپوں کی نمائندگی ہو۔تاجک 20 فیصد کے قریب افغانستان کی آبادی کا حصہ ہیں اور تیرہ سو کلو میٹر سرحد ہے۔
راحمون نے یہ بھی واضع کیا کہ ان کا ملک ایسی افغان حکومت کو مسترد کردے گا۔جو باقی حکومت کو مسترد کردے گا۔جو باقی قوموں کی ذلت رسوائی پہ مبنی ہو۔ازبکستان نے ان تمام ویسٹرن ممالک کے لوگوں کو اور 500 سے زائد افغان پائلٹ جو طالبان کے آتے ہی افغانستان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے کو ازبکستان میں پناہ دی اور ان کو منزل تک پہنچانے میں مدد کی۔
وہ جہاز جو ان بھاگنے والوں کو لے کر جارہے تھے۔ان کی ری فیولنگ بھی ازبکستان میں ہوئی۔طالبان کے رویہ کی وجہ سے ازبکستان نے وقتی طور پر اپنی پالیسی تبدیل کی اور 200کے قریب افغانستان سے بھاگے ہوئے لوگوں کو واپس افغانستان بھیج دیا۔جس سے انٹرنیشنل کمیونٹی نے کافی اعتراض کیا۔ترکمانستان نے طالبان اور افغانستان کے حوالے سے ایسی پالیسی رکھی۔جسے غیر جانبدارانہ کہا جا سکتا ہے۔لیکن ترکمانستان کی حکمران جماعت افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے بہت قریب تھی۔یہاں تک کہ حامد کرزئی کے دور میں ترکمانستان نے افغانستان کی rehabilitation اور reconstruction میں اپنی بساط کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔اور کابل کے الیکٹریکل پاور کا قرضہ بھی بہت کم کردیا تھا۔اس کے علاوہ انرجی کم داموں میں فراہم کرتے رہے۔ترکمانستان نے ریلوے کا ایک حصہ بھی تعمیر کرلیا جو افغانستان اور ترکمانستان کو ملاتا تھا۔اس تمام صورت حال پاکستان ہی ایک واحد ملک ہے۔جس کے بارے میں پہلے دن سے طے ہے۔کہ افغانستان اگر اپنے کسی ہمسایہ ملک سے سب سے بڑھ چڑھ کر تعلقات بڑھائے گا۔تو وہ پاکستان ہی ہوگا۔لیکن جہاں کچھ اور معاملات سر اٹھا سکتے ہیں۔وہاں یہ ایک ایسا ایشو ہے۔اگر اس ایشو نے کوئی خاص رنگ پکڑ لیا۔تووہ دونوں ممالک کے لئے مناسب نہ ہوگا۔وہ ایشو ہے ڈیورنڈ لائن۔ ڈیورنڈ لائن ایک ایسا ایشو ہے جو افغانستان کی ماضی کی تمام حکومتوں چاہے وہ لبرل تھے۔کمیونسٹ تھے۔ مجاہدین تھے۔یا پھر طالبان۔سب اس بات پر اڑے رہے کہ ڈیورنڈ لائن کا 100سالہ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔اسے نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور باقی دنیا جانتی ہے۔اگر بات ڈیورنڈ لائن تک چلی گئی۔تو یہ مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان گھمبیر ہوسکتا ہے۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭