مرزا روحیل بیگ
وزیراعظم عمران خان 2023 کے قومی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال چاہتے ہیں، اس حوالے سے حکومت متحرک نظر آتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہوں گے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن اور اپوزیشن نے اس حوالے سے لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانگ ووٹنگ کو مسترد کرتے ہوئے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر اعتراضات پر تفصیلی رپورٹ سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں جمع کرائی ہے جس میں الیکٹرانک ووٹنگ پر 37 اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے دھاندلی رک سکتی ہے اور نہ ہی ووٹر کی شناخت خفیہ رہے گی۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ 4 لاکھ مشینوں پر کم از کم 150 ارب روپے خرچ ہوں گے، اتنا پیسہ خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہے گی۔
الیکشن کمیشن سے قبل اپوزیشن جماعتیں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر عدم اعتماد کر چکی ہیں، جنہوں نے الیکشن کمیشن سے ملتے جلتے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان اعتراضات میں بیلٹ پیپر کی رازداری نہ رہنا، ویئر ہاؤسز اور ٹرانسپوٹیشن مشینوں کے سافٹ ویئر کی تبدیلی، ہیکنگ وغیرہ کے خدشات شامل ہیں، جبکہ ووٹر کی تربیت اور ٹیکنالوجی کا استعمال بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس طرح نتائج میں تاخیر کے باعث میڈیا، این جی اوز اور سول سوسائٹی کو بداعتمادی ہو سکتی ہے۔ 2023 کے انتخابات میں اگر آر ٹی ایس کی طرز پر یہ سسٹم فلاپ ہو گیا تو ذمہ دار متعلقہ وزارتیں اور الیکشن کمیشن ہو گا۔ اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ جرمنی، ہالینڈ، آئرلینڈ، اٹلی اور فن لینڈ نے سکیورٹی مسائل کی وجہ سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں شرح خواندگی کم ہونے اور ووٹروں میں اس مشین کے استعمال کے بارے میں آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اس مشین کو انتخابات میں استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہو گا اور الیکشن کمیشن کے سٹاف کو اس مشین کے استعمال کی تربیت دینے میں وقت بہت کم ہے۔ الیکشن کمیشن کی رائے میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے شفاف الیکشن ممکن نہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کا یکطرفہ فیصلہ کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں سے بھی مشاورت کی جائے کیونکہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کئی ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ناکام ہو چکا ہے۔ جرمنی میں قومی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، یہاں ووٹ بیلٹ پیپر اور ڈاک کے ذریعے ڈالے جاتے ہیں۔
جرمنی میں 2005 میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کے بعد شفافیت پر اعتراضات اٹھائے گئے۔ عدالت نے سائبر ایشوز، آئن لائن مداخلت کا خدشہ قرار دے کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال غیر آئینی قرار دیا۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ نے بیلٹ پیپر طریقہ کار میں ہاتھ سے کاؤنٹنگ کے ذریعے کسی قسم کی بے ضابطگی خارج از امکان قرار دی، جس کے بعد سے جرمنی میں انتخابات کا روایتی طریقہ رائج ہے۔ اس بات میں وزن ہے کہ اگلے انتخابات میں صرف دو سال رہ گئے ہیں اور اس مختصر عرصہ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو پہلی بار پورے ملک میں متعارف کروانا بہت مشکل کام ہو گا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے منصوبے میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ الیکشن میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں جلد بازی فائدہ مند نہیں۔ ورچوئل دنیا اب ایک حقیقی دنیا بن چکی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے ڈیٹا سکیورٹی انتہائی اہم ہے۔ شفافیت اور بے ضابطگیوں کے خاتمے کے لیئے درکار آئینی تبدیلیوں کے لیے فریقین کی مشاورت ناگزیر ہے اور کسی ایسے اقدام سے بہر صورت گریز کیا جائے جس سے قومی وحدت اور اتفاق رائے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے بھی کثرت رائے سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق ترمیم مسترد کر دی اور ساتھ ہی اوورسیز پاکستانیوں کے لیئے الیکٹرانک ووٹنگ سے متعلق ترمیم بھی مسترد کر دی۔ یہ معاملات اصلاح کی بجائے نئے تنازعات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ عوام کے حق رائے دہی کو شفاف اور بھرپور انداز سے بروئے کار لانے کے لیے حکومت، اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کوئی راستہ نکالیں۔ اب تک الیکشن کمیشن نے دوسرے کچھ ملکوں میں مشین کی ناکامی اور ووٹر کی شناخت کے حوالے سے جن مسائل کا ذکر کیا ہے حکومت کو ایسے خدشات دور کرنا چاہئیں اور ادارہ جاتی ٹکراؤ کی فضا پیدا نہیں ہونے دینی چاہیئے۔ جمہوریت کے استحکام کی آج کی مثالی فضا گدلی ہو گی تو اس سے جمہوریت کو پہنچنے والے نقصان کے باعث کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
(کالم نگارجرمنی میں مقیم،بین الاقوامی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭