قسور سعید مرزا
کاغذ کا ہر ٹکڑا ایک نظر کا مستحق ضرور ہوتا ہے۔ ذوقِ مطالعہ کی یہ قطعاً دلیل نہیں کہ آراستہ پیراستہ کمرہ ہو، چمکدار جلد کی کتابیں ہوں، چار رنگی طباعت ہو، آرام دہ کرسی اور صاف و شفاف میز ہو۔ جنہیں قدرت نے ذوقِ مطالعہ سے نوازا ہے وہ گلی میں لگے بلب کی روشنی میں بھی اِس کی تسکین کر لیتے ہیں جنہیں مُطالعہ سے وحشت ہو وہ ڈرائنگ روم کے قیمتی فانوس سے بھی کوئی استفادہ نہیں کر پاتے۔ اخباری مضامین سے لے کر ٹھوس تحقیقی مواد تک سبھی کا مُطالعہ ناگزیر ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کس دارالعلوم اور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے؟ مگر اِن کا اسلوب نگارش بیسیوں اہل قلم کا آستانہ بنا جہاں وہ جُھکتے رہے۔ مولانا مودودیؒ نہ دیو بند میں پڑھے اور نہ بَریلی میں، مگر اِن کی نثر کیا ہے ایک شکر پارہ ہے جو مُنہ میں گُھلتی ہے، خواجہ حسن نظامیؒ بَھلا کہاں کے ڈگری ہولڈر تھے کہ علامہ اقبال کو کہنا پرا کہ ”مُجھے اگر خواجہ حسن نظامیؒ جیسی نثر لکھنے پر قدرت حاصل ہوتی تو میں بھی شاعری کو ذریعہ اظہار نہ بناتا۔“ یہی حال شورش کشمیری کا تھا نہ سکول گئے نہ مدرسہ دیکھا۔ احسان دانش بھی عمر بھر مزدور ہی رہے۔ جناب ضیا شاہد صاحب تو تعلیم یافتہ تھے۔ اِن کے ہاں مقصدِ مطالعہ برائے مطالعہ نہیں بلکہ کسب فیض رہا اور سچی بات یہ ہے کہ جب بھی ان کو پڑھا تو خیالات کو رفعت ملی۔ کبھی سوچ کو وسعت نصیب ہوئی۔ کبھی ذہن کو پختگی اور کبھی دماغ کو بلندی حاصل ہوئی۔ کبھی زاویہئ نظر دُرست اور کبھی قبلہ فکر راست ہوا۔ الفاظ و حروف سے دِل میں ہلچل بھی ہوئی اور آنکھوں میں جَل تھل، غنچہئ تخیّل چٹک اُٹھا اور کبھی شُعلہئ عمل بھڑک اُٹھا۔ کبھی احساسات کے آنگن میں چاند اُتر آیا اور کبھی جذبات کے افق پر سورج اُبھر آیا۔ کبھی اردگرد رنگ و نور کے ہالے بھی دیکھے اور کبھی کیف و سرور کے چشمے بھی۔
ضیا شاہد کہنہ مشق لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب بھی تھے۔ صحافت آج کے دَور میں محض لکھت پڑھت کا نام نہیں رہا بلکہ یہ قصّر والدین سے لے کر خاکِ اُفتادگان تک کی سیاسی و سماجی ضرورت بن چُکی ہے۔ اِس لئے اِس کے اثرات ہمہ گیر بھی ہیں اور دُور رس بھی۔ جب سے اربوں انسانوں پر مشتمل یہ دُنیا ”گلوبل ویلیج“ میں تبدیل ہوئی ہے تو اُسی لمحے سے ابلاغ اور اِس کے ذرائع کو بے حد اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ اب ممکن نہیں رہا کہ کوئی مغلِ اعظم کسی انارکلی کو دیوار میں چُنوا دے اور کسی کو خبر تک نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ صحافت پہلے تین ستونوں کی کمزوریوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا تنہا کیسے مقابلہ کر رہی ہے۔ تاہم گناہ گاروں کے سمندر میں نیکیوں کے جزیرے ہر دَور میں پائے گئے اور ہر شعبہ میں موجود رہے۔ ایک وقت تھا کہ اخبارات کی بھیڑ نہ تھی تو ایک سے بڑھ کر ایک لکھاری موجود تھا۔ آج اخبارات ہیں تو لکھنے والوں کا حال ہمارے سامنے ہے۔ روزنامہ ”کوہستان“ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ پھر ”مشرق“ کا دور آیا ”امروز“ کی اپنی اونچی پرواز تھی۔ اخبار پڑھنے والے ”نوائے وقت“ کا بھی بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ ”انجام“ کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کے ”الہلال“ اور ”البلاغ“ مولانا ظفر علی خان کا ”زمیندار“ اپنے وقت کی للکاراور پُکار تھے۔ یہ سبھی لوگ فاقے لے کر کال کوٹھڑی تک پہنچے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان اور پاکستانی عوام کا واسطہ زمینی خداؤں سے پڑ گیا۔ صحافت کو پابندیوں اور صحافیوں کو سزاؤں سے نوازا گیا۔ لیکن ایک عوامی اور آزاد اخبار کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی۔ جناب ضیا شاہد مرحوم نے یہ محسوس کر لیا تھا۔ وہ پیدائشی طور پر ایک محنتی انسان تھے۔ صبح سے شام تک لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے تھے۔ نت نئے آئیڈیاز پرکام کرنا اِن کا شوق تھا۔ انہوں نے محنت کے ساتھ روزنامہ ”پاکستان“ کو متعارف کرایا لیکن اکبر بھٹی کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکے۔ انہیں خدا حافظ کہا اور روزنامہ ”خبریں“ کی بنیاد ڈالی۔ دفتری امور و معاملات کو دیکھنے اور ہر پہلو پر نظر رکھنے میں ضیا شاہد صاحب کو مہارت حاصل تھی۔
محترم ضیا شاہد پاکستان کے پہلے اور اب تک آخری صحافی ہیں جنہوں نے قومی سطح کے دو اخبارات نکالے اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ راقم کے مرحوم ضیا شاہد صاحب کے ساتھ ذاتی تعلقات اور نیاز مندی تھی۔ میں نے انہیں کام کرتے دیکھا ہے اور بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو سیاسی شعور دیا اور ضیا شاہد صاحب نے ”خبریں“ کے پلیٹ فارم سے غریبوں، کمزوروں اور مظلوموں کو آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔ بے شمار نوجوانوں کو قلم پکڑنا اور لکھنا سکھایا۔ ایک زمانہ تھا جب کوئی اخبار کا مالک یا مدیر کسی عورت کے اغوا کی خبر چھاپنا جُرم سمجھتا تھا لیکن ”خبریں“ نے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو شائع کیا۔ سَب کی خبر دی اور سَب کی خبرلی۔ جہاں غریب وہاں خبریں، ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کی پالیسی کو دھڑلے سے اپنایا۔ ظالم کے مقابلے میں مظلوم اورطاقت کے مقابلے میں محروم کی آواز بنا۔
لاہور، اسلام آباد، کراچی، ملتان، پشاور، حیدرآباد، سکھر، مظفر آباد میں واقع ”خبریں“ کے دفاتر مظلوموں، بے کسوں، بے نواؤں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔ بے شک مرحوم کی محنت، کام سے لگن، بے باک جرأت، بے دھڑک اندازِ تحریر اور شعلہ بیانی ان کو آگے سے آگے بڑھاتے چلی گئی۔ انہوں نے کبھی بھی دفتر چھوڑ جانے والے اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کا بُرا نہیں منایا۔ نہ اِن کے جانے پر اظہار ناراضگی کیا اور نہ ہی اِن کی دوبارہ واپسی پر دفتر کے دروازے بند کئے۔ یہ ایک بہت بڑی خوبی تھی جو ان کو اپنے صحافتی حلقے اور برادری میں ممتاز کرتی ہے۔ ضیا شاہد صاحب نے اپنے نوجوان ہونہار بیٹے کی وفات کا صدمہ بڑے جگرے کے ساتھ برداشت کیا۔ بیٹی کو بیوہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ جو ایک باپ کے لئے بہت ہولناک ہوتا ہے۔ خود بھی بہت ساری بیماریوں کا شکار ہوئے لیکن مجال ہے کہ ان کی استقامت، بہادری اور بے خوفی متاثر ہوئی ہے۔ یہ مظلوموں اور محروموں کے لئے مسیحا تھے اور”خبریں“ ان کا ہسپتال بنا رہا جہاں سے انہیں شفا اور دوا ملتی ہے۔ مظلوموں کا ترجمان بننے کے ساتھ ساتھ خبریں نے دو قومی نظریئے کو مضبوط و مستحکم کیا۔ بدعنوان افسر شاہی کو بے نقاب کیا۔ عدلیہ کی آزادی کے لئے کام کیا۔ زبان و نسل کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی ہر سازش کو بے نقاب کیا۔ پاکستان کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے سیاسی، معاشی اور جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ سرائیکی وسیب کو صوبہ بنانے کی آواز کو تقویت دی۔
کرونا وَبا کے دِنوں میں خبریں کے کردار کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ اِس مصیبت کے دوران امتنان شاہد صاحب باہر نکلے۔ رَضا کار تیار کئے۔ مُفت کھانے تقسیم کئے۔ عوام کے ساتھ ٹھہرے اور کہا کہ ہمیں سادہ راشن بھیجیں۔ آپ بھجوائیں گے۔ ہم پہنچائیں گے۔ اخبارات بہت ہیں مگر ملک میں عوام دوست پالیسی کا ایک ہی اخبار ہے۔ جناب ضیا شاہد مرحوم کی روح سکون محسوس کر رہی ہو گی اور مسرور ہو گی کہ اُن کے ہونہار سپوت جناب امتنان شاہد صاحب نے نہ صرف اخبار کو ذمہ داری کے ساتھ سنبھالا ہے۔ بلکہ آج وہ قدم بڑھا کر سرائیکی وسیب کے دوسرے بڑے شہر بہاول پور سے ”خبریں“ کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے ادارے کی 29 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو اودھم بازی کے دَور میں کسی نئے سنٹر سے اخبار کا اجرا کرنا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کے لئے امتنان شاہد صاحب اور ادارے کے کارکن مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اپنے ہاں محترم ضیا شاہد صاحب، عزیزم عدنان شاہد اور چیف صاحب کے داماد کے درجات بلند کرے اور امتنان شاہد صاحب کو عزت و صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے اور مزید کامیابیاں سمیٹنے کی توفیق و ہمت بخشے (آمین)
(کالم نگارایوان صدر پاکستان کے
سابق ڈائریکٹرجنرل تعلقات عامہ ہیں)
٭……٭……٭