عارف بہار
مسلم لیگ ن کے راہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شہباز نے اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع درست فیصلہ تھا۔جو ملک کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا۔اب جبکہ مدت ملازمت میں توسیع کو دوسال سے زیادہ عرصہ ہوچکا یہ بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟شاید اس لئے کہ چند دن قبل اسلام آباد میں ایک پریس ٹاک کے دوران ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا تھا کہ وہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے گناہ میں شریک نہیں تھیں۔صاف اشارہ میاں شہباز شریف کی طرف تھا جو ایک مرحلے پرمیدان میں کود پڑے تھے اور اپنی پارٹی کو جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر آمادہ کیا تھا۔یہ کوئی خسارے کا سودا بھی نہیں تھا اس ایک فیصلے سے کئی ایک دروازے کھلتے چلے گئے تھے۔اس عرصے میں مریم نواز اس معاملے پر خاموش رہیں مگر اب انہوں نے اپنے موقف کو مزید وزن دار بنانے کے لئے گناہ وثواب کا قصہ چھیڑ کر حقیقت میں شہباز شریف پر تنقید کا راستہ اپنایا اور اسی بات کے دفاع میں حمزہ شہباز نے تبصرہ کرنا ضروری سمجھا۔مسلم لیگ ن کئی ضمنی انتخابات کے بعد کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج میں اچھی کارکردگی کے باوجود”ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں“ کے انداز میں اپنی حتمی منزل سے کوسوں دور ہے۔ہر سیاسی جماعت کی طرح وہ حتمی منزل ملک کا اقتدار ہے۔جارحانہ سیاسی انداز مزاحمت کا بیانیہ پاک ٹی ہاؤس کی محفلوں میں بہت خوش کن اور بحث کو گرم سے گرم تر کرنے کا سامان ہو سکتا ہے اور جدید دور میں سوشل میڈیا پر داد سمیٹنے کے لئے بھی اچھا خیال اور تحسین کا اچھا سامان ہے مگر اس کا کیجئے کہ پاکستان میں اقتدار کی راہیں بہت پرپیچ ہیں۔یہ ماضی میں کبھی موچی دروازے اور پا ک ٹی ہاؤس سے ہو کر گزری ہیں نہ جدید دور میں فیس بک اور ٹویٹر یا جی ٹی روڈ سے گزر تی ہیں۔یہ بھول بھلیوں کی دنیا نظروں سے اوجھل ہوتی ہے کہنے کو ان راستوں کوپنڈی کے پرانے شہر میں جانا اورسمجھا جاتا ہے۔یہ تاثر حقیقت سے قریب تر ہے۔اقتدار میں واپسی کے دو طریقے ہیں ایک ہے ایران کے امام آیت اللہ خمینی اور فلپائن کی مسز کوری اکینو کا راستہ جو ملک میں ایک طوفانی عوامی سیلابی ریلے پر سوار ہو کر اختیار واقتدار کے مالک بن بیٹھے۔اس کے لئے انقلابیوں کا بلند اخلاقی مقام پر فائز ہونا ضروری ہوتا ہے۔انقلابی قیادت میں جیل کے مچھروں اور مکھیوں سے مزاحمت اور مقابلے کا مادہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔اس کا ماضی فقر وقناعت کی بنیاد پر عام سوسائٹی سے جداگانہ ہوکیونکہ انقلابی نے لوگوں کو جان دینے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔انقلاب تو جمی جمائی طاقتوں کو الٹ ڈالنے کا نام ہے اور اس کھیل میں جمی ہوئی طاقت حالات پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے ہر حربہ اپناتی ہے۔انقلاب کے اصول اور سبق جی ٹی روڈ کے راہیوں پر لاگو کریں تو آگے دھند ہی دھند ہے۔جو کچھ نظر آتا ہے فقط ہے کہ پاؤں مار کر سپیس حاصل کی جائے۔اسی سپیس کا جائزہ لینے ایک با ر زبیر عمر بھی اتفاقی ملاقات کر بیٹھے تھے۔
زبیر عمر بے چارے ایک وڈیو سیاست کی زد میں آگئے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ وڈیو ز کی دیگ کا ایک صرف دانہ ہے اصلی دیگ ابھی کسی ذخیرے میں باقی ہے۔یہ ذخیرہ کس کے پاس ہے کچھ پتا نہیں۔ یہ مزاحمت کا ماڈل ہے اور دوسرا راستہ مفاہمت کا ہے یعنی طاقت کے اصل مراکز کے ساتھ رسم وراہ پیدا کرکے خیمے میں داخل ہونے کا راستہ۔مسلم لیگ ن نے وسطی پنجاب میں اپنی طاقت کو آزماتے ہوئے جی ٹی روڈ پر ”مجھے کیوں نکالا“کی صداؤں سے حالات کا انداز ہ لگایا لیا تھا۔یہ ”مس فائر“ہوایوں جی ٹی روڈ کا سفربھی مکمل ہوا اور گردوپیش کا منظر بھی وہی رہا۔نہ کوئی سیاسی آندھی چلی نہ اس میں کوئی اُڑا بس ایک موج اُٹھی مگر ساحل سے نہ ٹکرا نہ سکی۔لے دے کر مفاہمت کا راستہ باقی رہا۔مزاحمت برائے مفاہمت کا فلسفہ بھی اپنا جلوہ دکھا نہ سکا۔مزاحمت جنہیں کرنی تھی وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ایسے میں باقی رہ گیا مفاہمت کا فلسفہ۔مسلم لیگ ن میں شہباز شریف اور ان کا گھرانہ مستقل مفاہمت کی علامت رہے ہیں۔یہ حقیقت پسندی کی خوبیوں سے مالا مال ہیں۔انہیں اندازہ ہے کہ آنکھیں دکھانے کے لئے اپنا دامن صاف ہوبنا چاہئے صرف خود اپنی زبان سے پارسائی کے دعوے حقیقت کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔یوں وہ کبھی مزاحمت کبھی مفاہمت یا”مزاحمت برائے مفاہمت“ کے قائل نہیں رہے۔ان کے خیال میں مفاہمت ہی پرامن بقائے باہمی کا اصول اور راستہ ہے۔جو کشمکش مسلم لیگ ن نے باہر کی قوتوں سے کرنی تھی وہ مفاہمت اور مزاحمت کے اس کھیل میں اندر ہی چل پڑی۔اب مزاحمت اور مفاہمت سے بات آگے بڑھ کر گناہ وثواب تک جا پہنچی۔ آمدہ انتخابات سے پہلے ہی مسلم لیگ ن گناہ وثواب کے اس بیانیے کی بھول بھلّیوں میں کھو سکتی ہے۔ان حالات میں ن لیگ کو ایک بڑی جماعت کے طور پر اندرونی تضادات پر قابو پانا ہوگا۔یہ پاکستان ہے اور یہاں انقلاب کی باتیں محض تخّیلاتی اور تصوراتی محل ہی ثابت ہوتی ہیں۔یہاں قومی مفاہمت پر مبنی شہباز شریف کا ”جیو اور جینے دو“ کا اصول ہی سب سے بڑی زمینی حقیقت ہے۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭