طارق ملک
قارئین کرام!میں اپنے کالموں میں مسلسل غربت مہنگائی اور بے روز گاری کا ذکر کر رہا ہوں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہونے والی مہنگائی تو ڈالر کی قیمت میں کمی سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔لیکن حکومت وقت ایسے اقدامات کرکے جن سے غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کو فوری فائدہ ہو سکے ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔ پاکستان کی آبادی تقریباً 22 کروڑ ہے جب کہ لاہور کی آبادی 12600000 ہے لاہو ر میں کئے گئے اقدامات کو پورے صوبے میں بلکہ پاکستان میں نقل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ لاہور پاکستان کا دل ہے اور پنجاب کا صوبائی دارلحکومت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی نظریں لاہور پر لگی ہوتی ہیں پنجاب کی کل آبادی 11کڑور ہے جو کہ باقی تین صوبوں کی آبادی سے زیادہ ہے۔ لاہورمیں ہو شربا مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سے حکومت وقت واقعی بہت پریشان ہے اور حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشنوں میں بھی لاہور سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لاہور میں غربت اور مہنگائی، مصنوعی مہنگائی بے روزگاری، متعدی بیمارویوں اور قدرتی آفات سے احسن طریقہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت نے نوجوان محنتی، تجربہ کاراور قابل افسر محمد عمر شیر چٹھہ کو ڈپٹی کمشنر لاہور تعینات کیا ہے۔جوبطورڈپٹی کمشنر میانوالی اور سیالکوٹ کام کرچکے ہیں۔ ان کے اہم ٹارگٹس میں پبلک سروس ڈلیوری، غربت اور بے روز گاری میں کمی،مہنگائی اور مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کرنا، متعدی امراض کو بروقت کنٹرول کرنا، کرونا ویکسین سو فیصد مکمل کروانا اور ناگہانی آفات سے لاہور کے باسیوں کو محفوظ رکھنا ہے۔
اسی طرح لوگوں کی درخواستوں پر مناسب احکامات جاری کرتے ہیں۔ مہنگائی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اورہونے والی مہنگائی ڈالر کی قیمت میں کمی سے ہی ختم ہو سکتی ہے مگر مصنوعی مہنگائی یعنی اور چارجنگ کو ختم کرنے کے لیے ضلعی حکومت نے کمر کس لی ہے۔
پرائس مجسٹریٹوں کی تعد اد 40 سے بڑھا کر 80 کر دی گئی ہے اور گراں فروشی کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جا رہا ہے۔
کریا نہ کی اشیا ء فروخت کرنے والے کافی حد تک راہ راست پر آگئے ہیں۔ لیکن فروٹ اور سبزی فروخت کرنے والے ریڑھی بان اپنی غربت کی چھتری تلے چھپ جاتے ہیں۔ ان کو بھی راہ راست پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
میں نے عمرشیرچٹھہ سے کہا کہ تمام دکانوں جن میں کریانہ کی دوکانیں، سبزی اور پھلوں کی دوکانیں اور دیگر اشیا خورد نوش کی دکانیں شامل ہیں پر ڈیڑھ فٹ ضرب اڑھائی فٹ کا بورڈ ہر دوکان پر نمایاں جگہ پر لگایا جائے جن پر اشیا خور د نوش کی قیمتیں درج ہوں تاکہ گاہک اس بورڈ کو پڑھ سکیں اور انہیں اشیا خورد نوش کی قیمتوں کا علم ہو سکے اس بورڈ کے پیچھے اس علاقے کے پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کا نا م اور موبائل نمبر درج ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی دوکان دار کے پاس محکمہ کی طرف سے ریٹ لسٹ بھی ہونی چاہیے۔ تاکہ گاہک کسی قسم کا شک و شبہ دور کرنے کے لیے بورڈ کے ساتھ ریٹ لسٹ کا موازنہ کرسکیں۔
اس ضمن میں پرائس مجسٹریٹس خوامخواہ تبدیل نہ کیے جائیں اس سے ایک تو ان کے علاقہ کے عوام کی ان سے شناسائی ہو جائے گی۔ دوسرے وہ اپنے علاقہ میں مصنوعی مہنگائی / اورچارجنگ کے ذمہ دار ہوں گے۔ علاوہ ازیں اکبری منڈی میں مقررہ تھوک ریٹ پر فروخت کو یقینی بنایا جائے اگر کوئی دوکاندار کسی پرائس مجسٹریٹ کو اکبری منڈی سے مقررہ نرخوں سے زائد پر خرید کی رسید دے تو اکبری منڈی کے اس تاجر کے خلاف ڈپٹی کمشنرآفس سے سخت کارروائی کی جائے۔ اسی طرح سبزی منڈیوں اور سلاٹر ہاؤ س میں بھی سرکاری تھوک نرخ کی پابندی کروائی جائے کیونکہ اگر دوکانداروں کو اکبر ی منڈی، سبزی منڈیوں اور سلاٹر ہاؤس سے اجناس، سبزیاں، پھل اور گوشت سرکاری رتھوک ریٹ پر نہیں ملے گا تو وہ یہ چیزیں اپنی دوکان پر لاکر پرچون سرکاری ریٹ پر فروخت نہیں کرسکیں گے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور نے میری ان گزارشات کو بڑے غور سے سنا اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ لاہور میں اس وقت دس پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں جہاں ناشتہ‘ دوپہر اوررات کاکھانا حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق دیا جاتاہے جوکہ داتا دربار، بھاٹی گیٹ، فروٹ سبزی منڈی، ریلوے ا سٹیشن، بس سٹینڈ لاری اڈا، ٹھوکر نیاز بیگ، نگہبان سنٹر، گجومتہ، کوٹ خواجہ سعید، جوہرٹاؤن اور بند روڈ پر ہیں۔ ان پناہ گاہوں میں روزانہ 718 لوگوں کے ٹھہرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ ان پناہ گاہوں میں اب تک 355540 لوگ ٹھہر چکے ہیں۔ڈپٹی کمشنرنے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم کے پروگرام کوئی بھوکا نہ سوئے کے تحت غریب علاقوں میں ٹرکوں کے ذریعے کھانا پہنچا یا جاتا ہے اور غریب علاقوں میں فری لنگر خانے بھی قائم کیے گئے ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی فہرستوں کے مطابق اساس پروگرام کے تحت غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی ماہانہ مدد کی جارہی ہے یہ فہرستیں 2009 میں بنی تھیں اب انکو دوبارہ ترتیب دیا جارہا ہے تاکہ اگر کوئی مستحق رہ گیا ہے تو اس کا نام بھی شامل کیا جائے۔
حکومت کے خدمت کے جذبے اورعمرشیرچٹھہ کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد لاہور مصنوعی منہگائی سے پاک ہو جائے گاا ور غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی مدد اور خدمت میں اضافہ ہو گا اور انشااللہ لاہورماضی کی طرح پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے لیے رول ماڈل بن جائے گا۔ آمین
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭