تحسین بخاری
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تین سال ہو چکے ہیں مگر عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے تاحال کوئی وعدہ پورا نہیں ہو سکا۔مہنگائی پر قابو،کرپشن کا خاتمہ،ملاوٹ سے پاک اشیا اور سو دنوں کے اندر اندر سرائیکی صوبے کے قیام سمیت کوئی بھی ایسا وعدہ نہیں جس پر گورنمنٹ پورا اتری ہو۔یہ تین سال پچھلی حکومتوں کی برائیاں گنوانے میں گزاردئیے گئے جبکہ عوام اس وقت مہنگائی کے بد ترین عذاب سے گزر رہی ہے۔ اب توعوام کا سیاستدانوں پرسے اعتماد ہی اٹھ چکا ہے عوام جان چکے ہیں کہ ن کی باتوں پر یقین کرنا بے وقوفی ہے دودھ کی نہریں بہانے اور سونے کی سڑکیں بنانے کے دعوے محض اقتدار حاصل کرنے کا ایک ڈرامہ ہوتا ہے۔
اپوزیشن کی صورتحال یہ ہے کہ بالکل نظر ہی نہیں آتی۔اسٹیبلشمنٹ سے جنم لینے والی ن لیگ کو اب اسٹیبلشمنٹ ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اسٹیبلشمنٹ جب ن لیگ کو سپورٹ کرے تو اچھی اور جب ہاتھ کھینچ لے تو بری بن جاتی ہے۔اپوزیشن سیاسی دورازے سے باہر نکلنا تو چاہتی بھی ہے مگرگرین سگنل نہ ملنے کی وجہ نکلنے کی جرا ت نہیں کر پارہی،مولانا فضل الرحمان کی دیگ میں پی ڈی ایم کا پکا یا جانیوالا پکوان ابھی آدھا بھی نہیں پک پایا تھا کہ پیپلزپارٹی دیگ کے نیچے جلنے والا ایندھن کھیچ کر بلاول ہاوئس لے گئی اب اس دن سے مولانا صاحب مسلسل دیگ میں چمچہ بھی ہلا رہے ہیں اورایندھن کی واپسی کیلئے بلاول ہاؤس کی طرف نظریں بھی جمائے بیٹھے ہیں مگر پیپلز پارٹی یہ ایندھن واپس کر کے خود کون لیگ نہیں بنانا چاہتی۔ مولانا صاحب اپنے بزرگ منہ سے ہو ا پھونک پھونک کر بجھی ہوئی آگ کو دوبارہ جلانے کی کوشش میں بے حال ہو چکے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب سے گزرنے والے پاکستانی عوام کے اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے اگرچہ اپنے کیمپ سے باہر نکل کر سیاسی درجہ حرارت چیک کرنے کی کوشش کی ہے تاہم ان کی سرگرمیاں اپوزیشن کے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے بالکل ناکافی ہیں۔
بلاول کے سرائیکی بیلٹ کے دورے نے سیاسی تالاب میں جو پتھر پھینکا ہے اس سے تالاب میں پچھلے تین سالوں سے بیٹھے سیاسی مینڈکوں نے توقع کے مطابق اگرچہ اچھل کود تو نہیں کی تاہم کروٹ ضروربدلی ہے۔بلاول کا سرائیکی وسیب کا دورہ بھی خاصا دلچسپ رہا،انکے رحیم یار خان کے دورے کے دوران متحرک اورا نر جیٹک نوجوان ایم پی اے مخدوم عثمان محمود خاصے متحرک دکھائی دئیے،مخدوم عثمان محمود پنجاب اسمبلی میں اپنے خطے کی بھرپور نمائندگی کرنے کی وجہ سے نوجوانوں میں خاصے مقبول ہیں جبکہ حلقے کی غریب عوام انھیں اپنا لیڈر نہیں بلکہ دوست سمجھتے ہیں۔جمالدین والی میں ہونیوالے ورکر کنونشن میں ماحول کا جائزہ لینے کے لئے بلاول سے قبل مخدوم عثمان محمود جیسے ہی پنڈال میں پہنچے تو جیالے انہیں دیکھتے ہی دیوانہ وار انکی طرف ٹوٹ پڑے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر سردار حبیب الرحمان خان گوپانگ اپنی کرسی کسی مہمان کے حوالے کرکے پورے جلسے میں کھڑے رہے۔انتظامیہ ان کے لئے دوسری کرسی لاتی تووہ فورا ًپیچھے بیٹھے کسی مہمان کو آگے بلاتے اور کرسی ان کے حوالے کر دیتے ان کی اس اخلاقی قدر کو سیاسی مبصرین نے بے حد پسند کیا۔مخدوم ارتضیٰ سے بھی بلاول خاصی گپ شپ کرتے نظر آئے کیونکہ بلاول کو پتہ ہے کہ مخدوم ارتضیٰ اس کے والد آصف علی زرداری کا بھی لاڈلا ہے اور بلاول ہاؤس میں آصف زرداری کے ساتھ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر اگر کوئی پورے جاہ و جلال سے سگریٹ کے بھر پور کش لگا سکتا ہے تو وہ مخدوم ارتضیٰ ہے،میاں عامر شہباز بھی بلاول کے دورے میں پیش پیش رہے ان کے ورکر کنونشن کو بلاول نے بہت پسند کیا،عامر شہباز کے ورکر کنونشن کے دوران سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم عثمان محمود کی آپس میں مسلسل سرگوشیاں بھی عوامی توجہ کا مرکز بنی رہیں،راجہ سولنگی نے سینکڑوں جیالوں کے ساتھ بلاول کا شاندار استقبال کیا جس سے بلاول متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور گاڑی سے نیچے اتر کر اسے گلے سے لگا لیا۔صحافی برادری کی صحافتی تسکین پیپلز پارٹی کے راہنما جاوید اکبر ڈھلوں کے پروگرام میں پوری ہوئی۔جاوید اکبر ڈھلوں نے اپنے پروگرام میں تمام صحافیوں کو مدعو کر کے بلاول سے تفصیلی ملاقات کروائی بلاول بھی صحافیوں سے گھل مل گئے اور خوب گپ شپ کرتے رہے۔ صحافی برادری نے بھی جاوید اکبر ڈھلوں کی صحافیوں سے اس محبت کا قرض ان کے پروگرام کو بھر پور کوریج دے کر اتارا۔بعد ازاں بلاول پیپلز پارٹی کے ضلعی جنرل سیکریٹری چوہدری جہانذیب رشیدکے گھر بھی گئے اور پھر اپر پنجاب کے دورے کے لیے روانہ ہو گئے۔
بلاول کے دورے کے بعد سنا ہے اب ن لیگ کا سیاسی طیارہ بھی لاہور سے سرائیکی وسیب کیلیے پرواز بھرنے کیلیے تیار کھڑا ہے حمزہ شہباز کا اس دورے کا شیڈیول بھی جاری ہو چکا ہے تاہم عوام کا جو فی الحال مزاج ہے وہ سڑکوں پر نکلنے والا بالکل نہیں ہے عوام ابھی خاموش ہیں۔مولانا صاحب بھی مسلسل پی ڈی ایم کی کچی دیگ کو پکانے کیلیے دم درود کر رہے ہیں مگر اب شاید بلاول ہاؤس میں پڑا اس دیگ کا ایندھن انہیں واپس نہ مل پائے کیونکہ اس ایندھن کی واپسی اب کسی اور قوت سے مشروط ہو چکی ہے اوریہ قوت فی الحال پی ڈی ایم کی اس دیگ کو کچا ہی دیکھنا چاہتی ہے۔
(کالم نگارسیاسی و سماجی ایشوز پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭