تازہ تر ین

قومی زندگی کی داستان اورعمررواں

محمد فاروق عزمی
”عمر رواں“ جماعت اسلامی کے نائب امیر اور سابق ممبر قومی و صوبائی اسمبلی جناب فرید احمد پراچہ صاحب کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔ اصناف ادب میں ”سوانح عمری“ ہمارے لیے ہمیشہ دلچسپی کی چیز رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ کتاب ہاتھ لگی، تو پھر اسے الگ رکھنا دشوار ہو گیا اس میں ہمارا ”شوقِ مطالعہ“ تو اپنی جگہ اصل کرشمہ تو فرید پراچہ صاحب کی تحریر کا سحر انگیز انداز بیان ہے کہ وہ انتہائی سادگی اور دلکش اسلوب میں روانی اور سلاست کے ساتھ اپنی زندگی کے نشیب و فراز زیب داستاں کی ملمع سازی کے بغیر قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ 400 صفحات میں انہوں نے اپنی زندگی کے اکہتر سال کے شب و روز میں پیش آمدہ اہم واقعات، ماضی کی یادیں، بچپن، لڑکپن، تعلیمی مدارج، جامعہ پنجاب کے ماہ و سال جماعت سے وابستگی، ملکی سیاست کے اہم واقعات، پس دیوار زنداں بیتے شب و روز الغرض اس داستانِ حیات میں راز و نیازِ دل اور صدائے عقل و خرد کے ساتھ ساتھ طلسمِ چشم زلیخا کے قصے اور دامِ بردہ فروشاں کے تذکرے نے ”عمر رواں“ کو ایک انتہائی دلچسپ لیکن معلوماتی اور دستاویزی حیثیت کی حامل سوانح عمری کا رنگ دے دیا ہے۔ یہ ایسی کہکشاں ہے جس میں زندگی کے سبھی رنگ چمکتے دمکتے ہیں۔ ملاقاتوں کی تصویر کشی، دوستوں سے تعلقات اور وفا شعاریاں، ذاتی اور عوامی زندگی کے اُتار چڑھاؤ، سیاسی اور ملکی حالات کے تجزیے، دعوت و تبلیغ کے انداز اور پارلیمان کی منظر کشی، ایسی ہی قوس قزح کے رنگوں میں گندھی تحریروں کے مجموعے کا نام ”عمر رواں“ ہے۔
فرید پراچہ زمانہ طالب علمی سے ہی اسلامی تحریک سے وابستہ ہو گئے۔ ملک عزیز میں برپا ہونے والی دینی اور سیاسی تحریکوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور درجن سے زائد مرتبہ پابند سلاسل ہوئے، عالمی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے بیرونِ ملک بے شمار سفر کیے اور تقریباً ساری دنیا گھومے۔ تصانیف و تالیف میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا اور تقریباً اس وقت تک ڈیڑھ درجن کتب کے مصنف ہونے کا سہرا ان کے ماتھے پر چمکتا ہے۔ ”عمر رواں“ صرف فرید احمد پراچہ کی زندگی کی داستان ہی نہیں ہے بلکہ یہ جماعت اسلامی اور پاکستان کی قومی و سیاسی سرگرمیوں پر مشتمل نصف صدی کی مکمل تاریخ ہے۔ جسے علمی ادبی حلقوں میں دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔ ان کے اندازِ تحریر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کا ایک سفرنامہ ”یہ فاصلے یہ رابطے‘‘ شائع ہوچکا ہے اور جسے ملک کے نامور ادیبوں اور قلم کاروں نے بے حد سراہا۔ جن میں بابا جی اشفاق احمد، مختارمسعود، ڈاکٹر خورشید رضوی اور مستنصر حسین تارڑ جیسے نامور ادیب شامل ہیں۔
”عمر رواں“ کے مطالعے کے دوران آپ کی آنکھوں کے سامنے ماضی کی ایسی فلم ذہن کے پردہ پر متحرک ہو جاتی ہے کہ دل کے نہاں خانوں میں دفن گزری کئی دہائیوں کی یادیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگتی ہیں۔ ملکی اور قومی سطح پر رونما اہم واقعات جب بہت برسوں بعد آپ پڑھتے ہیں تو پھر یہ کتاب ”فرید احمد“ کی کتاب نہیں رہ جاتی بلکہ پاکستان کے ہر اس شہری کی داستان بن جاتی ہے جسے ملکی و قومی امور میں دلچسپی رہی ہے اور جو پاکستان میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں اور رویوں کا مطالعہ کرتا رہا ہے یا ان کا حصہ رہا ہے۔ کبھی تو وہ 1958ء کے ایوبی مارشل لاء کے زمانے میں چلے جاتے ہیں، جہاں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور کبھی وہ 1964ء کے ان صدارتی انتخابات کا احوال پڑھتے ہیں کہ جن میں ایک طرف آمر مطلق ایوب خان اُمیدوار تھا تو دوسری طرف مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، قائداعظمکی ہمشیرہ محترمہ یہ الیکشن لڑ رہی تھیں اور جنہیں ناکام کرنے کے لیے یہ الیکشن بی ڈی سسٹم کے تحت کرایا گیا۔ پورے ملک میں صرف بی ڈی چیئرمین ووٹ دینے کے اہل تھے۔ اس طرح بے حسی سے ایک منصوبے کے تحت محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا کر قوم کی خواہشوں اور اُمنگوں کا خون کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح آج بھی مادرِ ملت کے مقدس منصب پر فائز ہیں اور قوم کے دلوں میں بستی ہیں۔
کتاب کے اوراق پلٹتے جائیں تو مصنف کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ قومی زندگی کے دھارے اور بین الاقوامی سیاست کے نشیب و فراز بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء، سید مودود ی کی رحلت، افغانستان میں روسی جارحیت، جہاد افغانستان میں جماعت اسلامی کا کردار، قومی عدالتوں کی سزائیں، پنجاب یونیورسٹی کی یادیں، جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم اور اسی طرح متنوع موضوعات نے کتاب کو ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت دے دی ہے۔ 29 فروری 2020ء کو دوحا میں امریکی اور پاکستان وزرائے خارجہ سمیت 50 ممالک کے نمائندوں کی موجودگی میں امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہونے والے امن معاہدے کا باب رقم کرتے ہوئے فرید پراچہ صاحب لکھتے ہیں:
”یہ انوکھی جنگ تھی، ہارنے والے 40 ممالک کی فوجیں تھیں، وہ جہاز ٹینک اعلیٰ ترین ہتھیار رکھتے تھے، دوسری طرف نہ کوئی جہاز تھا نہ ٹینک نہ تربیت یافتہ فوج تھی، صرف جذبہ جہاد تھا، شوقِ شہادت تھا، جس نے سپر پاور کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ بوریہ نشین جیت گئے اور توپیں ٹینک ہار گئے۔
(کالم نگار مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain