انجینئر افتخار چودھری
چندروزقبل اے ایس آئی اسلم فاروقی تھانہ سول لائنز کی حدود میں منشیات فروشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔اللہ کے پیارے اس نوجوان کی عمر صرف اٹھائیس سال تھی انا للہ و انا الیہ راجعون
مقابلے میں ایک منشیات فروش بھی ہلاک ہو گیا لعنت بر مردار
راولپنڈی پولیس کے ملازم اس سے پہلے ان سماج دشمن عناصر کے خلاف لڑتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کر چکے ہیں
اس سے چند ماہ قبل مری میں ایسا واقعہ ہو چکا ہے عمر صدیق گجر نامی ایک سب انسپکٹر نے بہادری کا مظاہرہ کیا منشیات فروشوں پر ہاتھ ڈالا تو اس کو گولیاں ماری گئیں جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔پولیس کے اس بہادر جوان کی ہمت دیکھئے کہ اپنے سینے میں سانس کی نالی کے پاس گولی کے ٹکڑے لئے یہ گجروں کا بیٹا پھر ڈیوٹی پر پہنچ گیا اور اگلے روز اس نے ایک منشیات فروش کو گرفتار بھی کر لیا۔شیر کا جگرا ہے اس کے پاس اللہ پاک اپنی حفاظت میں رکھے آمین۔
قارئین نشے نے ہماری نسل کشی شروع کر دی ہے ندی نالوں میں پڑے آدھ موئے یہ بھی کسی کے لعل ہیں۔ ان کے پیدا ہونے پر بھی شادیانے بجائے گئے ہوں گے ماؤں نے خوشیاں کی ہوں گی اور باپ نہال ہوئے ہوں گے لیکن دولت کے پجاریوں نے انہیں نشے پر لگا کر انہیں ناکارہ بنا دیا ہے جس گھر میں ایک بھی نشئی ہوتا ہے وہ گھرانہ تباہ ہو جاتا ہے معاشرے میں وہ نفرت کا نشانہ بن جاتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں اس کی سرکوبی کے لیے عام پولیس ناکافی ہے ANF گرچہ ایک الگ سے فورس موجود ہے لیکن اس کا کام شہروں گلیوں اور چوکوں میں کارروائیاں کرنا نہیں یہ کام پولیس کو ہی کرنا پڑتا ہے۔عام ملزمان سے نپٹنا پولیس کے لیے معمولی کام ہے لیکن منشیات فروش کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں انہیں علم ہے کہ گرفتاری کی صورت میں عمر بھر جیل کا سامنا کرنا پڑے گا وہ اس ڈر سے پولیس پر فائر کھول دیتے ہیں کہ پکڑے گئے تو مارے جائیں گے۔سماج کے یہ دشمن کسی رحم کے قابل نہیں ہیں
دوسری جانب پولیس کو دیکھیں تو اکثر اوقات یہ گلہ سننے کو ملتا ہے کہ پولیس کے پاس مناسب لوازمات نہیں ہوتے اسلحہ مناسب نہیں ہوتا گاڑیاں کھٹارہ ہوتی ہیں ان کے پاس وہ ضروری چیزیں نہیں ہوتیں کہ وہ ان سماج دشمن عناصر کا مقابلہ کر سکیں جن کے پاس جدید اسلحہ اور گاڑیاں ہوتی ہیں اور مزے کی بات ہے ان کی سر پرستی بھی کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ راولپنڈی پولیس کی کارکردگی پہلے سے بہت بہتر ہے۔خاص طور پر سی پی او احسن یونس کے آنے کے بعد راولپنڈی قدرے سکون میں ہے۔جرم انسانی فطرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے روز اول سے قتل ہو رہے ہیں۔شہر کی بیٹیاں مائیں سلام کہتی ہیں ۔ایک دن ڈی سی کی میٹنگ میں سی پی او نے جو بریفینگ دی اس سے ہمیں حوصلہ ملا کہ عوام محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
کاش دوسرے محکموں کے ہیڈ بھی سر جوڑ کر اور دل سے اپنا کام کریں۔شہر بدلنا کوئی مشکل کام نہیں اگر محکمے کا سربراہ سوچ لے کہ میں نے یہ کام کرنا ہے تو وہ کام ہو کے رہتا ہے۔
قارئین ایک اسلم فاروقی نہیں ہزاروں ایسے جوان ہیں جو ہماری حفاظت پر مامور ہیں۔افسوس یہ ہے کہ شہریوں کی جانب سے جو ستائش ہونی چاہئے تھی وہ ہو نہیں رہی۔ایک بے حسی کا عالم ہے۔”پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی“ بھی اپنی جگہ مگر یہ بھی تو ہے ”عوام کا ہے فرض مدد پولیس کی“ کے وہ بھی تو اس سلوگن کو اپنائے ۔
یہ میرے اور آپ کے لیے ایک خبر ہے اس سے پہلے عمران شہید کی بھی ایک خبر ہی تھی جسے شہید کر دیا گیا تھا کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ انہیں بھی فوج کے شہدا کی طرح مانا جائے ان کو بھی بہادری کے تمغات دئے جائیں انہیں بھی زمینیں مربعے الاٹ ہوں اور ان کے نام کی سڑکیں ہوں بازار اور شہر ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان شہدا کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے ان کی اولاد اور بچوں کو دست شفقت مہیا ہوں۔صدر پاکستان اور گورنر ان کے گھروں میں پہنچیں یا اپنے پاس بلائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔میں نے تو صدر پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ کم از کم ان شہدا کے ورثا کو تو بلائیں جو اس ملک کو بدلنے کے لئے گمنام راہوں میں مارے گئے ۔
اسلم فاروقی تو اپنا فرض نبھا گیا لیکن اب اس کے ماں اور باپ پر جو گزر رہی ہے اس کا مداوا کون کرے گا ۔ ضروری ہے کہ ہم انہیں قومی ہیرو تسلیم کریں۔میں اس روز دکھی ہوا جب میں نے دیکھا کہ انسپکٹر عمران شہید کے بیٹے کو سی پی او اور ان کا سکواڈ ایک جلوس کی شکل میں لے کر سکول جا رہے تھے۔
کاش یہ کام اس شہر کے اور اس حلقے کے اسمبلی کے ممبر نے کیا ہوتا کاش ہم اس جلوس میں شامل ہوتے اور ثابت کرتے کہ ہمارے لئے جس نے جان دی ہے ہم اس کی قدر بھی کرتے ہیں۔
اسلم فاروقی آج جان پر کھیل گئے اگر ہم نے اس قسم کے جوانوں کو خراج عقیدت نہ پیش کیا تو یاد رکھئے نوکریاں تو سب ہی کرتے ہیں وہ بھی جان بچا سکتا تھا اسے اگر اس خوف نے آن گھیرا کہ میری بھی ایک بچی ہے میں کیوں جان پر کھیلوں لیکن وہ قوم کے ان بیٹوں اوربیٹیوں کے لئے جان دے گیا جو اس قسم کے بد معاشوں کی نظر ہو جاتے ہیں اسلم سوچتا کہ مجھے گولی لگ سکتی ہے میری بیٹی یتیم ہو سکتی ہے میں بھی کنارے ہو جاتا ہوں لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ آگ کا دریا ہے اور کود کے جانا ہے اس نے اس دریا میں آگ لگا دی۔ہم اہل قلم بھی خاموش رہیں گے دیکھ لیجئے گا کہ کوئی نہیں لکھے گا سب خاموش ہوں گے سب کو چپ لگی ہو گی ستائش ہو گی اس کی جس سے کچھ ملے گا آج کل تو فرمائشی کالم لکھوائے جاتے ہیں تعریف کرائی جاتی ہے اور کالم میں مطالبے کئے جاتے ہیں کہ اس بندے کو فلاں نوکری دے دو۔فلاں پوسٹ پر لگا دو۔
افسوس اس بات پر ہے کہ یہ شہر راولپنڈی فوج کا شہر ہے وزیر داخلہ کا شہر ہے لیکن یہاں امن و امان قائم کرنے والے ادارے کہ ہاں آئے روز لاشیں گر رہی ہیں اور ہم سب خاموش مجرم بنے تماشہ دیکھ رہے ہیں یہ 114 واں شہید ہے ۔منشیات فروش قاتل ہیں ان کے لیے سخت قوانین نافذ کئے جائیں ایک اور افسوس بھی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے کیپٹل پنشمینٹ دے رکھی ہے یہاں ان قومی مجرموں کو وکیل بھی مل جائے گا اور تگڑا وکیل کھڑا ہو گا اور پھر عدالت میں گواہی کون دے گا۔عدالتی نظام کی مثال دیکھئے میرے گھر ڈاکہ پڑا آج دو سال کے قریب ہونے کو ہیں آئے روز ملزمان ضمانت کے لئے عدالتوں میں موجود ہوتے ہیں پولیس مجھے کال کرتی ہے کہ صبح فلاں عدالت میں پہنچ جائیں ایمر جینسی میں کون پہنچ سکتا ہے چار مختلف ڈاکوں نے مجھے تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ایک کی ضمانت لگتی ہے تو دوسرا بلا لیتا ہے۔ان کے ہاس اتنے پیسے کہاں سے آ گئے جو تگڑے سے تگڑا وکیل کر لیتے ہیں۔ایک تو گھر سے لاکھوں گئے اوپر سے عدالتوں میں گھسیٹ گھسیٹ کے میرا لک توڑ دیا ہے صبح فلاں عدالت میں پہنچ جائیں اصالتا یا وکالتا۔اس عمر میں گھروں گھر گوایا باہروں۔۔۔
ہم چھوٹے تھے تو کہا کرتے تھے گھروں پئیاں جتیاں تے باہروں پئیاں کتیاں۔
اسلم قریشی کا باپ بھی عدالتوں میں رلے گا؟اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا؟جو ہر شہید کے والدین کے ساتھ ہو رہا ہے۔ایک احسن یونس کے اچھے اقدامات سے اسلم فاروقی کو سکون نہیں ملے گا یہاں سسٹم ہونا چاہئے سب سے پہلا میرا مطالبہ ہے کہ پولیس کے شہید کو بھی فوج کے شہید کی طرح مقام دیا جائے سرکاری اعزاز جو ہمارے ان فوج کے بہادروں جوانوں کو ملتا ہے جو دشمن سے لڑتے ہوئے جان دیتے ہیں پولیس کو بھی وہی اعزاز وہی مراعات ملنی چاہئیں۔
پاکستان کی پولیس کی ٹریننگ بھی اسی سطح کی ہونی چاہئے جس طرح فوج کی ہوتی ہے۔انہیں بھی مشکل سے مشکل تر حالات کا سامنا کرنے کا تجربہ ہونا چاہئے اس لئے کہ پولیس کو بھی فوج ہی کی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پولیس پر حملے کے واقعات پر دہشت گردی کی دفعات لگنی چاہئیں۔اس کے لیے انکوائری ٹیمز تشکیل دیں کہ ان دفعات کا غلط استعمال نہ ہو۔مری کے واقعے پر جو دفعات لگائی گئی ہیں ان پر نظر ثانی ہونا چاہئے۔پندرہ سالہ بچی کا معاملہ ہے
عمر صدیق تو زندہ بچ گیا اسے بھی علم ہونا چاہئے کہ پولیس کے وہ جوان جو گولیوں کا سامنا کرتے ہیں اگر وہ بچ جائیں تو حکومت ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ملازمین چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے ہماری منتیں کرتے ہیں پولیس کا ایک شعبہ ہو جو ان کے جائز کام آسانی سے کرا دے انسپکٹر مشتاق کی بچی کا وزارت تعلیم میں معمولی کام ہے یہ کام آپ کے آئی جی آفس کی جانب سے ہونا چاہئے کہ وہ وزیر اعلی سے کرا کر دیں ہم سیاست دانوں نے تو شائد اللہ کو جواب نہیں دینا کہ کسی کا آسانی سے کام کر دیں بدنام تو ہم نے اداروں کو کرنا ہے۔مراد راس سے گزارش کی ہے پتہ نہیں کون سی ادا ان کو راس آئے گی کہ وہ لوگوں کے کام آسانی سے کر دیں ایک راس نہیں سب کا یہ حال ہے۔
سوال یہ نہیں کہ 2023 میں کیا ہو گا سوال یہ ہے جو آئیں گے ان کا بھی یہی حال ہو گا عوام پہلے بھی رلتی تھی پھر بھی رلے گی ویسے لگتا تو یوں ہے کہ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ عمران خان کو رلائیں گے۔اس کا واحد حل ہے کہ پولیس اپنے لوگوں کی رفاہ کا کام بھی خود ہی کرے باقی،،جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا،،
ایک اکیلا عمران خان سر پھوڑ رہا ہے باقیوں کو اللہ سمجھے۔اسلم فاروقی شہید کی خدمات کو سلام اللہ پاک شہید کو جنت کے اعلیٰ مقام پر فائز کرے میرا رب اس کی معصوم بیٹی کو عافیت میں رکھے والدین کو صبر دے۔سلام پنجاب پولیس سلام پنڈی پولیس۔”جاگدے رہنا“
(کالم نگار پاکستان تحریک انصاف کے سینٹرل ایڈوائزر ٹریننگ اور ایجوکیشن ہیں)
٭……٭……٭