ملک منظور احمد
آج سے پانچ سال قبل جب دنیا میں پانامہ پیپرز کا اجرا کیا گیا تھا تو اس وقت عوام کو اور شاید سیاست دانوں کو بھی اس معاملے کی سنگینی اور ہنگامہ خیزی کا اندازہ نہیں تھا۔اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی شاید اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے اور اس کے نتیجے میں انہیں نہ صرف وزارت عظمیٰ بلکہ اپنے سیاسی کیرئیر سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔اس بار ایک تبدیلی ضرور تھی کہ پنڈورا پیپرز کے عالمی صحافتی تنظیم آسی آئی جے کی جانب سے اجرا سے قبل ہی میڈیا سمیت سیاست دان بھی سانس روکے ہوئے بیٹھے تھے۔کچھ اشارے اس حوالے سے بھی دیے گئے کہ شاید وزیر اعظم عمران خان کی بھی کو ئی نئی آف شور کمپنیاں منظر عام پر آسکتی ہیں لیکن آئی سی آئی جے نے حوالے سے وضاحت کر دی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے نام پر کوئی آف شور کمپنی موجود نہیں ہے۔لیکن بہر حال وفاقی وزراء جن میں وزیر خزانہ شوکت ترین،مونس الہیٰ شامل ہیں اس کے علاوہ سینیٹر فیصل واوڈا،سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے صاحبزادے علی ڈار،علیم خان،سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود سمیت کئی اہم کا روباری،سابق عسکری اور میڈیا شخصیات کے نام ان پیپرز میں سامنے آئے ہیں۔اور یہ نام سامنے آنے کے بعد یہ سوال سب کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں کہ اب کیا ہو گیا؟ کیا پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والی شخصیات کے خلا ف تحقیقات ہوں گی اور اگر ہوں گی تو کیسی ہو ں گی۔معاملہ پر سیاست بھی ہو رہی ہے جو کہ ہونی ہی تھی اپوزیشن کا اس حوالے سے مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے ہی سابقہ بیانات کی روشنی میں پہلے اپنے وزراء اور ساتھیوں سے استعفی ٰ لیں اور اس کے بعد تحقیقات کروائیں،اور اصولی طور پر دیکھا جائے تو اپوزیشن کی یہ بات خود وزیر اعظم کے سابقہ موقف کی روشنی میں وزن بھی رکھتی ہے۔لیکن کیا وزیر اعظم یہ اقدام اٹھائیں گے؟ اس بات کا جواب چند دنوں میں سب کے سامنے آجائے گا لیکن فی الوقت اس کے امکان انتہائی کم دکھائی دیتے ہیں۔اس حوالے سے وزیر اعظم نے تحقیقات کے لیے انسپکشن کمیشن کے تحت تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تو تشکیل دے دی ہے،جس میں نیب ایف آئی اے اور ایف بی آر کے نمائندے شامل ہوں گے لیکن ان کے ان اقدامات پر سوالات ضرور اٹھ رہے ہیں،اور سوال اٹھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کا معائنہ کمیشن طویل عرصے سے مکمل طورپر غیر فعال ادارہ بن چکاہے۔اس ادارے کی رپورٹ پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ہے۔وزیر اعظم کے معائنہ کمیشن کے مینڈیٹ میں سرکاری اداروں میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں،بے قاعدگیوں اور خلاف ضابطہ کام کے حوالے سے کام کرنا ہے لیکن وزیر اعظم معائنہ کمیشن کی کا رکردگی ہمیشہ سے ہی مایوس کن رہی ہے۔
اپوزیشن کے رہنما بھی پنڈورا پیپرز کے تحقیقاتی سیل کے قیام کے حوالے سے سرکاری اعلان کو مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کیا وزیر اعظم اپنے لوگوں کے خلاف سپریم کو رٹ جا ئیں گے؟یہ قیاس آرائیاں بھی جا ری ہیں کہ یہ سیل صرف اور صرف اپوزیشن کو نشانہ بنانے کا ہتھکنڈہ ثابت ہو سکتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ پانامہ پیپرز کے اجرا کے بعد وزیر اعظم عمران خان جو کہ اس وقت اپوزیشن کے لیڈر تھے انھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف اس حوالے سے ایسی عوامی اور قانونی مہم چلائی تھی جس کی شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس ے قبل مثال نہیں ملتی ہے۔اور اب عوام کی توقع یہی ہے کہ وزیر اعظم اپنے ساتھیوں کے خلاف بھی اسی انداز میں سخت ایکشن لیں اور کا روائی کریں جس انداز میں سابق وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ہوئی۔
یہاں پر یہ بات بھی نہایت ہی اہم ہے کہ پانامہ پیپرز لیکس میں بھی محض سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے نام شامل نہیں تھے بلکہ کئی سو پاکستانیوں کے نام اس فہرست میں شامل تھے لیکن ان کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے خلا ف بادی الّنظر میں کو ئی کا رروائی ہو ئی۔اگر اس حوالے سے تحقیقات ہونی ہیں تو اکراس دا بورڈ،اور نہایت ہی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں اسی طرح بہتر انداز میں اس معاملے کو ڈیل کیا جاسکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ پنڈورالیکس میں نام آنے والا ہر شخص ہی قصور وار ہو لیکن بہر حال اس حوالے سے تحقیقات ہونا لازمی ہیں۔پنڈورا میں جن 700پاکستانیوں سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ ان کی منی ٹریل کیا ہے اگر ان کی آف شور کمپنی قانونی بھی ہے تو پیسہ باہر کیسے گیا اور کیا اس پیسے پر ٹیکس کی ادائیگی ہوئی یا نہیں یہ اہم سوالات ہیں جن کے جواب آنا ضروری ہے۔
یہاں پر یہ اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے آئی سی آئی جے کے مقاصد بلکہ ان کی نیت پر شک و شکوک کا اظہار کیا جا رہا ہے یہ کہا جا رہا ہے کہ تنظیم امریکی فنڈڈ این جی او چلاتی ہیں اور فنڈ کرتی ہیں۔ان کی رپورٹس میں تضادات اور مبالغہ آرائی کے اعتراضات بھی اردن اور روس سمیت دیگر ممالک نے اٹھائے ہیں یقینا ان میں بھی وزن ہے اور اسی قسم کے اعترضات پانامہ لیکس کے وقت بھی سامنے آئے تھے لیکن اب اس حوالے سے جو مثال قائم ہو چکی ہے اور خود موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے بطور اپوزیشن لیڈر قائم کی تھی اس کے بعد پنڈورا پیپرز کے بعد بھی سب کی نظریں اب وزیر اعظم عمران خان پر ہی مرکوز ہیں۔پنڈورا پیپرز کی تحقیقات یقینا بہت سارے لوگوں کی نظر میں جن میں ان کے ووٹرز بھی شامل ہیں وزیر اعظم کی ساکھ کا امتحان ہیں آیا وزیر اعظم اس امتحان میں کامیاب ہو تے ہیں یا نہیں اس سوال کا جواب ہمیں چند دنوں تک بڑی حد تک مل ہی جائے گا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭