ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
پاکستان کی معیشت اس وقت دو راہے پر کھڑی ہے۔ایک طرف تو پاکستان کی شرح نمو 5فیصد سے زائد ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ معیشت اسی رفتار کے ساتھ رواں معاشی سال کے دوران ترقی کرتی رہے گی جو کہ پاکستان کے لیے ایک مثبت بات ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کو ایک مرتبہ پھر 2017ء کی طرح بڑھتے ہوئے تجارتی اور کرنٹ اکا ؤنٹ خسارے کا سامنا ہے جو کہ پاکستان کے روپے پر دباؤ کا سبب بن رہا ہے۔اوپن ما رکیٹ میں امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر 173سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں مزید اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔جتنا ڈالر مہنگا ہو گا اتنا ہی مہنگائی کی لہر میں شدت آئے گی۔پیٹرول،ڈیزل،بجلی اور گیس سمیت ہر چیز مہنگی ہو جائے گی جس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ اور اشیا خوردونوش سمیت ہربنیادی چیز کی قیمت بڑھے گی اور عوام پر بم بن کر گرے گی۔یہ حکومت کے لیے یقینا ایک ابتر صورتحال ہے حکومت ایک طرف مشکل سے حاصل کی گئی ایک بہتر شرح نمو جو کہ ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے،کو کسی صورت کھونا نہیں چاہے گی دوسری جانب کسی بھی صورت میں حکومت کی خواہش نہیں ہو گی کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اتنا بڑھ جائے کہ حکومت کو پھر سے آئی ایم ایف کے در پر ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو نا پڑ جائے۔
ہم تو اب ابھی 2019ء میں حاصل کیے گئے پہلے آئی ایم ایف پروگرام سے ہی نہیں نکل سکیں ہیں۔لیکن اس حوالے سے میں ابھی آگے چل کر بات کرتا ہوں۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک انٹر ویو میں بتایا ہے کہ حکومت کے اندازوں کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی برآمدات 40ارب ڈالر کے لگ بھگ رہنے کی توقع ہے جو کہ گزشتہ سال کی نسبت ایک بہت بڑا اضافہ ہو گا اور اگرہدف حاصل کر لیا جا تا ہے تو حکومت کی بڑی کامیابی بھی تصور ہو گی لیکن مسئلہ یہ درپیش ہے ملک کی نہایت ہی تیز رفتار سے بڑھتی ہو ئی درآمدات نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور اس حوالے سے حکومت کے تمام اندازے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔حکومت کے اندازوں کے مطابق رواں مالی سال درآمدات کا ہدف 70ارب ڈالر رکھا گیا تھا،لیکن اب تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی درآمدات ہو ش ربا اضافے کے ساتھ 75 ارب ڈالر تک رہ سکتی ہیں جو کہ بہت زیادہ ہیں۔حکومت نے غیر ضروری درآمدات جن میں گا ڑیوں سمیت کئی لگژری آئیٹم بھی شامل ہیں پر اضافی ڈیوٹی عائد کی ہے اور اس امید میں عائد کی ہے کہ اس ڈیوٹی سے ان کی درآمد میں کمی ہو گی،سٹیٹ بینک نے شرح سود میں بھی 0.25بیس پوائنٹس کا اضافہ کیا۔لیکن کچھ ماہرین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس شرح میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر پاکستان کی شرح نمو 4.5فیصد تک بھی رہتی ہے تو ملک کے لیے بڑا مسئلہ نہیں ہو گا لیکن اگر پاکستان کا کرنٹ اکا ؤنٹ خسارہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے تو اس کی فنانسنگ کرنا یقینا موجودہ عالمی حالات اور افغانستان کی صورتحال اور پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں جوئے شیر لانے سے کم نہ ہو گا۔پاکستان کو ابھی سے اس صورتحال سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی برآمدات میں بڑے اضافے کی ضرورت ہے۔اگر کسی طرح رواں مالی سال تک پاکستان کی برآمدات 45ارب ڈالر تک چلی جا ئیں تو پاکستان کو زرمبادلہ کے مسئلے سے نجات مل سکتی ہے۔
میں نے وزیر خزانہ کے منہ سے ہی یہ بات بھی سنی کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے حوالے سے یقینا بڑھتی ہو ئی درآمدات کا فیکٹر موجود ہے وہاں پر افغانستان کی صورتحال اور کچھ سٹے بازی کا عنصر بھی شامل ہے۔مجھے ان کی یہ بات سن کر بہت تعجب ہوا کہ اگر ملک کے وزیر خزانہ کو معلوم ہے کہ افغانستان میں پاکستان سے ڈالر کی سمگلنگ کی جارہی ہے تو اس حوالے سے کوئی پلان بنا کر بڑا کریک ڈاؤن کیوں شروع نہیں کیا جاتا؟ یہی باتیں کئی ماہرین کی جانب سے سامنے آرہی ہیں کہ چونکہ امریکہ نے افغانستان کے اسٹیٹ بینک کے 9.5ارب ڈالر کے زر مبا دلہ ذخائر منجمد کر دیے ہیں اس لیے اب افغانستان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان سے ڈالر افغانستان سمگل کیے جا رہے ہیں لیکن بات پھر وہیں آتی ہے کہ حکومت کو اس حوالے سے جامع پلان بنا کر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے،پاکستان کے عوام کو مہنگائی کی دلدل میں جھونکنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے اور اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات حکومت کی اولین ترجیح ہو نی چاہیے۔ایک تیسرا فیکٹر جس کا ذکر اثر ڈالر کی قیمت بڑھنے کے حوالے سے کیا جا رہا ہے وہ سٹے بازی ہے،بڑے بڑے سٹے باز افواہیں پھیلا کر ڈالر کی قیمت بڑھا رہے ہیں جبکہ وزیر خزانہ نے خود اپنے منہ سے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 165تک ہونی چاہیے اس سے زیادہ نہیں لیکن ہمیں معلوم ہی ہے کہ ڈالر کہاں تک چلا گیا ہے اور مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔حکومت کو اس حوالے سے بھی سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ گئی،اس لیے مہنگائی بڑھ گئی،درآمدات بڑھ گئیں ہیں اس لیے ڈالر مہنگا ہو گیا اور اس کی وجہ سے بھی مہنگائی بڑھ رہی ہے یہ باتیں زیادہ دیر تک عوام کو نہیں سنائی جاسکتی۔عوام حکومت کی جانب سے فوری ریلیف کے منتظر ہیں۔حکومت ڈالر کی قیمت کم کرے،اس کے لیے ایک مناسب حد تک شرح سود کیوں نہ بڑھانی پڑے وہ ضرور بڑھائے،عوام کو کھانے پینے کی اشیا ء پر سبسڈی دے اور درآمدات کے حجم پر بھی لگام ڈالی جائے،اگر رواں مالی سال پاکستان 65ارب ڈالر کی درآمدات بھی کرتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایک سال کے دوران 75ارب ڈالر کی درآمدات کسی صورت مناسب نہیں ہیں اور پاکستان کی معیشت ان کو ابھی افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
جہاں تک پاکستان کی برآمدات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے 40ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف اچھا ہے اس کو ہر صورت حاصل کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ اس سے کم برآمدات کی صورت میں پاکستان کا تجارتی عدم توازن پاکستان کو ایک اور شدید ترین مالی بحران میں دھکیل سکتا ہے۔اس کے علاوہ میں حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بھی کچھ بات کروں گا،ایک ارب ڈالر کی قسط کے لیے پاکستان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات دوبارہ شروع ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف حکومت سے بجلی،گیس،پیٹرول سمیت دیگر ٹیکسز میں اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے،اگر حکومت نے ان میں سے آئی ایم ایف کے آدھے مطالبے بھی مان لیے تو پاکستان کے عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے حکومت کو عوام کے مفاد کا خیال کرتے ہوئے اس حوالے سے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر عوام کے لیے تو آنے والے دنوں میں معیشت کے میدان سے تو کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭