ملک منظور احمد
پاکستان تحریک انصاف ملک میں بلا امتیاز احتساب کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی تھی،وعدے تو خیر انھوں نے عوام سے اور بھی بہت سے کیے تھے لیکن بہر حال مرکزی وعدہ ملک میں کرپشن کے خاتمے اور طاقت ور اشرافیہ کے احتساب کا تھا۔خود وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے کئی مرکزی رہنما کئی بار یہ بات مختلف مواقع پر کر چکے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا بنیادی ایجنڈا احتساب ہی ہے لیکن اگر حکومت کے گزشتہ تین سالہ دور اقتدار پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ حکومت نے احتساب کے نام پر پکڑ دھکڑ تو بہت کی ہے متعدد اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور پابند سلاسل کیا گیا،اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے لے کر سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تک اور سابق صدر آصف علی زرداری سے لے کر سابق وزیر اعظم نواز شریف تک تمام بڑے اور نامی گرامی رہنما سلاخوں کے پیچھے گئے سب نے جیل کی ہوا کھائی لیکن وہ سوال جو کہ اکثر میڈیا کی زینت رہتا ہے اپنی جگہ پر موجودہ ہے کہ آخر اتنی گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کے بعد حکومت اور اس سارے احتسابی عمل میں حکومت کا ہرا ول دستہ نیب آخر ان سیاست دانوں سے کتنی ریکوری کر سکے ہیں اور اس سوال کا جواب حکومتی وزراء اور لیڈروں کی جانب سے دیا بھی جاتا ہے ایسا نہیں ہے کہ جواب نہیں دیا جاتا، جواب میں کہا جاتا ہے کہ نیب نے تین سالوں میں کئی سو ارب کی ریکوری کر لی ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاص نمبر بھی کوٹ کیا جاتا ہے لیکن اگر ان اعداد و شمار کے حوالے سے تفصیل میں جا کر غور کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ ریکوری ضرور ہوئی ہے اور نیب نے ہی کی ہے لیکن سیاست دانوں سے نہیں بلکہ دیگر کیسز میں ریکوری ہو ئی ہے۔نیب کا ادارہ اپنے قیام سے لے کر آج تک تنازعات کا شکار رہا ہے اور نیب کو حاصل بعض اختیارات جن میں بغیر ریفرنس دائر کیے ہوئے یعنی کہ بغیر مقدمہ کے گرفتاری اور پھر اس کے بعد ضمانت نہ ہو نا ایسے اختیارات ہیں جو کہ شاید دہشت گردی کے ملزموں کے لیے تو شاید ہوں لیکن وائٹ کالر کرائم کے ملزموں کے حوالے سے ضرورت سے زیادہ سخت معلوم ہو تے تھے اور اپوزیشن سمیت دیگر حلقوں کی جانب سے بھی گاہے بگاہے اس حوالے سے اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
یہ بات بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے سابقہ حکومتوں کے ادوار میں اور یہاں پر میں وضاحت کرتا چلوں کہ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پا رٹی کے ادوار کی بات کر رہا ہوں یہ جماعتیں اپنے آپ کو جمہوریت کی علمبردار قرار دیتی تھیں لیکن نہ صرف انھوں نے یہ قوانین نہیں بدلے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال بھی کیے۔پاکستان تحریک انصاف کے تین سالہ دور میں نیب قوانین کا بھرپور استعمال کیا گیا،ایک کے بعد ایک اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا لیکن کچھ ٹھوس حقائق سامنے نہیں آئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کئی مرتبہ نیب قوانین کو تبدیل کرنے کے حوالے سے بات بھی چلی اپوزیشن نے اس حوالے سے 34ترامیم بھی حکومت کے سامنے رکھیں جن کو حکومت کی جانب سے نہ صرف مسترد کر دیا گیا بلکہ اپوزیشن کو نشانے پر رکھ لیا گیا کہ اپوزیشن نیب قوانین میں ترمیم نہیں بلکہ این آر او مانگ رہی ہے۔اور حکومت اپوزیشن کو کسی بھی صورت میں این آر او نہیں دے گی۔بہرحال اس وقت نیب آرڈیننس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی لیکن اب اچانک چیئرمین نیب کی توسیع کے معاملے پر حکومت نے ایک نیب آرڈینس سامنے لا کر بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔اپوزیشن سے کسی قسم کی مشاورت کے بغیر یہ آرڈیننس سامنے لاگیا ہے بلکہ اب تو یہ آرڈیننس نافذ اعمل بھی کر دیا گیا ہے۔اس آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں چار سال کی توسیع کی جاسکے گی۔اس حوالے سے صدر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے فیصلہ کرے گا۔نیب عدالتوں کو ضمانت کا اختیار حاصل ہو جائے گا مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی اور 6ماہ کے اندر اندر نیب مقدمات کا فیصلہ سنائے گا۔
اس کے علاوہ نجی کا روباری معاملات،بیو رو کریسی اور بینکوں کے معاملات کو بڑی حد تک نیب کی پہنچ سے استثنا دے دیا گیا ہے۔اس آرڈیننس میں جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے وفاقی اور صوبا ئی وزراء کو نیب قانون سے مبّرا قرار دے گیا ہے۔نیب کسی بھی وفاقی یا صوبائی وزیر کے معاملات کی چھان بین کے اختیار سے محروم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی فورمز جن میں ایکنک،سمیت دیگر شامل ہیں ان کے معاملات بھی نیب کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گے نیب آرڈیننس کی یہ شق کئی لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنی ہے۔اور بادی النظر میں وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے انصاف کے کرپشن کے حوالے سے دیرینہ موقف کی نفی معلوم ہو تی ہے۔اپوزیشن نے اس آرڈیننس کو مسترد کر دیا ہے اور اس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے لیکن ہمیں اس حوالے سے دیکھنا ہو گا کہ آیا اپوزیشن واقعی اس آرڈیننس کے خلاف کوئی قدم اٹھاتی ہے یا پھر اپوزیشن کے اس حوالے سے دعوے صرف اور صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہو تے ہیں کیونکہ اس آرڈیننس کے تحت براہ راست سندھ حکومت کے وزراء کو بھی فائدہ پہنچے گا بلکہ اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں جن میں شاہد خا قان عباسی،مفتاح اسماعیل اور احسن اقبال شامل ہیں ان کو براہ راست فائدہ پہنچ سکتا ہے اور ان کے کیسز ختم ہو سکتے ہیں۔بہر حال حکومت کی کرپشن کے حوالے سے بیانیہ پر سوال ضرور اٹھ چکے ہیں اور الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وزرا ء کو اس حوالے سے استثناٰ دے کر حکومت نے اپنے اہم لوگوں کو این آر او نہیں تو منی این آر او تو دے ہی دیا ہے،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس آرڈیننس کے بعد نہ صرف نیب کی کارروائیوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئے گی بلکہ ملک میں تین سال سے جاری احتساب کے عمل کی رفتار بھی نمایاں طور پر سست ہو جائے گی۔سیاسی حوالے سے بات کریں تو اس آرڈیننس سے پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی طور پر کتنا نقصان پہنچے گا یہ تو بہر حال وقت ہی بتائے گا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭