طارق ملک
قارئین کرام! میں اپنے پچھلے کالموں میں تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں کہ کس طرح پاکستان میں 1970ء سے لے کر آج تک اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا رزلٹ قبول نہیں کیا اور اس دوران میں پاکستان حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان میدان جنگ بنا رہا ہے ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ ہمارے ساتھ اور ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ الیکشنوں میں پری پول رگنگ کی وجہ سے عوام الناس کی الیکشن میں دلچسپی کم سے کم ہو رہی ہے جس سے ایک بڑا طبقہ ووٹ ڈالنے سے محروم ہے۔ جس کی وجہ سے 22 کروڑ عوام کی حقیقی نمائندگی نہیں ہو رہی اور زیادہ تر جو لوگ ووٹ ڈالتے ہیں وہ بھی یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ اُنہوں نے ووٹ تو کسی اور کو ڈالا تھا مگر نکلا کسی اور کے کھاتے میں اس طرح لوگوں کا الیکشن کی شفافیت سے اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ ایک ایم این اے کے حلقے میں تقریباً تین سو پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں اگر وہ ہر پولنگ اسٹیشن پر سو جعلی ووٹ ڈلوانے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کو 30 ہزار کے قریب جعلی ووٹ مل جائیں گے اسی طرح اگر وہ اپنے مخالف فریق کے دس ووٹ ہر پولنگ اسٹیشن سے منسوخ کروانے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کو تین ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہو سکتی ہے اس طرح کل 33 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہو سکتی ہے جو لوگ متواتر الیکشن لڑتے ہیں اُنہوں نے اپنے حلقوں میں ہزاروں جعلی ووٹ بنوائے ہوتے ہیں اور وہ پریزائیڈنگ آفیسر اور عملہ پولنگ اسٹیشن سے مل کر یہ دھاندلی کرتے ہیں اسی طرح یہ بااثر لوگ ریٹرننگ آفیسر پر اثر انداز ہو کر اپنے من پسند پولنگ اسٹیشن بنواتے ہیں اور اپنے من پسند سٹاف کی ڈیوٹیاں بطور پریزائیڈنگ آفیسر اور پولنگ آفیسر لگواتے ہیں تا کہ وہ آزادی سے دھاندلی کر سکیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ووٹنگ کا ٹرن اُور بہت کم ہوتا ہے۔ 1985ء کے الیکشن میں ٹرن اوور 53 تھا 1988ء میں ٹرن اُوور 43 فیصد تھا 1990ء میں ٹرن اوور 45 فیصد تھا 1993ء میں ٹرن اوور 40 فیصد تھا 1997ء میں ٹرن اُوور 36 فیصد تھا 2002ء میں ٹرن اُوور 42 فیصد تھا۔ 2008ء میں ٹرن اوور 44 فیصد تھا 2013ء میں ٹرن اوور 55 فیصد تھا جبکہ 2018ء میں ٹرن اوور 52 فیصد تھا اگر ہم اوسط دیکھیں تو 50 فیصد سے زیادہ ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں آتے کیونکہ اُن کا الیکشن کی شفافیت پر یقین نہ ہے۔
موجودہ حکومت نے نادرا کو ہدایت کی ہے کہ انکوائری کر کے 90 لاکھ جعلی ووٹوں کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ اسی طرح الیکٹرونگ ووٹنگ مشین متعارف کروائی گئی ہے جس کے ذریعے نہ تو جعلی ووٹ ڈال سکیں گے اور نہ ہی پولنگ عملہ کی ملی بھگت سے کسی کے ووٹ منسوخ ہو سکیں گے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پولنگ سکیم بھی جیو ٹیکنگ کے ذریعے شفاف طریقہ سے کرائی جائے تا کہ ووٹرز آسانی سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں اس طرح ایک تو اخراجات کم ہوں گے جن میں بیلٹ پیپر کی چھپائی الیکشن میٹریل کا خرچہ الیکشن سٹاف کی کنوینس اور ان کے ٹی اے ڈی اے کے اخراجات بچ جائیں گے اگر حساب لگایا جائے تو الیکٹرونک ووٹ مشین کا خرچہ ان اخراجات سے کم ہے اور یہ مشین آئندہ الیکشن اور بلدیاتی الیکشن میں بھی کام آئے گی۔ اور اس طرح آنے والے تمام الیکشن بہت کم خرچے میں ہو سکیں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ مل بیٹھ کر الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال کو آئندہ بلدیاتی اور جنرل الیکشن میں یقینی بنائیں اس طرح عوام کا منصفانہ الیکشن پر اعتماد بڑھے گا اور وہ آزادی سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے جس سے ٹرن اوور زیادہ ہو گا اور عوام کے حقیقی نمائندے سامنے آ سکیں گے جو ملک اور قوم کی خواہشات کے مطابق خدمت کر سکیں گے۔
دوستوں کا کہنا ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن کے دو دھڑے بن چکے ہیں ایک دھڑے میں شیخ روحیل اصغر، خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق اور رانا تنویر حسین شامل ہیں جب کہ دوسرے دھڑے میں خواجہ آصف، احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں۔ دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چودھری نثار علی خان کو پی ٹی آئی پنجاب کی صدارت کی پیش کش کی گئی ہے اور انہیں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ پنجاب کے آئندہ وزیراعلیٰ وہی ہوں گے لیکن چودھری نثار علی خان نے سردست یہ پیش کش یہ کہہ کر قبول کرنے سے معذرت کی ہے کہ انہوں نے ساری زندگی مسلم لیگ ن میں بھی کوئی پارٹی عہدہ قبول نہیں کیا تھا۔ الیکشن قریب آنے پر پارٹی میں شامل ہو سکتا ہوں۔ دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل الیکشن سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف بھی نااہل ہو جائیں گے۔
آئندہ الیکشن میں عمران خان، بلاول بھٹو زرداری، ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن الیکشن لڑیں گے۔ مستقبل میں مسلم لیگ ن کی قیادت کون کرتا ہے یہ ابھی کوئی پتہ نہیں ہے۔ دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم لیگ کے سینئر رہنما رانا تنویر حسین نے میاں محمد نوازشریف کو ملک واپس آنے کا مشورہ دیا ہے جس کی دیگر سینئر رہنماؤں نے بھی تائید کی ہے۔
طارق ثناء باجوہ داتا گنج بخش ٹاؤن لاہور کے ناظم رہ چکے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے دور میں تجاوزات کے خاتمے کے لئے دبنگ اقدامات کئے جن کے نتیجے میں کسٹم ہاؤس کے سامنے ایک معروف پرائز بانڈ کی تین منزلہ بلڈنگ جو کہ سرکاری جگہ پر بنی تھی کو گرا دیا اور یہاں پر ہائی کورٹ کے ججز کے لئے گیٹ لگوا کر راستہ بنوایا۔
ثناء باجوہ کاآج کل تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کو طارق ثناء باجوہ کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭