اکرام سہگل
قارئین!میرے گزشتہ کالم جنوبی ایشیا کاایک ادھورا خواب کادوسرا حصہ ملاحظہ کیجئے۔
خلیجِ بنگال کے گرد جہاز رانی اور بحری سفر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1498میں پرتگالیوں نے برصغیر کے مغربی کنارے کو فتح کرلیا تھا۔ اس کے بعد 1511 میں میلاکا پر تسلط جمانے کے بعد انہوں نے کیپ آف کومرن میں سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ بنگال میں پرتگیزیوں کی نجی تجارت کا آغاز کئی اسباب سے تھا۔ اس میں جرائم کی صورت میں قانونی کارروائی سے استثنی، اپنے ممالک میں سخت گیر مذہبی عدالتوں سے فرار، دولت سمیٹنے اور ریاست کی جانب سے ملنے والی تنخواہ کی غیر یقینی صورتِ حال اس کے اسباب میں شامل تھے۔ لیکن سب سے اہم وجہ یہی تھی کہ وہ ایشیا کے اندر ہی بڑھتی ہوئی تجارت کی اہمیت کے باعث اس خطے کو کاروباری طور پر فعال کرنا چاہتے تھے۔
پرتگیزی اس خطے میں ہوگلی (موجودہ کلکتہ بندرگاہ) اور چٹا گانگ تک نہیں رکے بلکہ انہوں نے بکلا، سریپور، لوریکل، دیانگا اور سندوئیپ جیسے چھوٹی بندرگاہوں کو بھی استعمال کیا۔ یہ پورا علاقہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ پرتگیزی 16ویں صدی کے آغاز میں بنگال کی سب سے اہم بندرگاہ چٹاگانگ تک پہنچ چکے تھے۔ 1535تک انہوں نے چٹاگانگ پر کسٹم ہاؤس بنانے کا اختیار بھی حاصل کرلیا تھا۔
سترھویں صدی تک پرتگیزی جنوب مشرقی ڈیلٹا میں دو طرح کا بندوبست کر چکے تھے۔ چٹاگانگ ایک بڑی بندرگاہ تھا اور وہاں پرتگیزی مضبوطی سے پاؤں جما چکے تھے۔ دیانگا، چندیکن، سرپور، سندوئپ اور سریام بھی اسی زمرے میں آتی تھیں۔ جب کہ موسمی نوعیت کے استعمال کے لیے چارگن اور انگا جیسی بندرگاہیں تھیں۔ 1632 میں ہوگلی پر پرتگیزیوں کا تسلط ختم ہوا اور اس کا انتظام شاہ جہاں کی فوجوں نے حاصل کرلیا۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی میں ولندیزیوں اور انگریزوں نے اس خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں شروع کردیں۔
پرتگیزیوں (اور ان کے علاوہ ولندیزیوں اور انگریزوں) کا دوسرا ’پیشہ‘ قزاقی تھا۔ جدید بنگال کے ابتدائی دور میں اس کی جنوب مشرقی ڈیلٹا میں پرتگیزیوں کے سوداگروں، مہم جو افراد اور سرکش افراد پرتگالی ریاست کی دست رس سے دور رہنے کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہوچکے تھے۔ یہ نجی گروہ بنگال کے ساحلوں پر کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا رکھتے تھے لیکن خطے کی سیاسی اور معاشی تشکیل میں ان کا کردار اہم تھا۔ مختصر مدت ہی کے لیے سہی لیکن پرتگیزی اس علاقے میں طاقتور رہے۔ یہ علاقہ قزاقوں کے لیے بہت موزوں تھا۔ یہ ایک مصروف اور منافع بخش تجارتی بندرگاہ تھی لیکن اس کے تحفظ کے لیے مضبوط ریاست اور بحریہ نہیں تھی۔ اس کے لیے چھوٹے چھوٹے جزیرے، کھاڑیوں، تنگ آبی گزرگاہوں اور مینگروز کی کثرت سے جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ علاقہ محفوظ پناہ گاہ تھی۔ 1750سے 1860کے دوران یہاں قزاقوں کی چاندی رہی۔
غلاموں کی تجارت کرنے والے یا بردہ فروشوں کی بنگال پر تواتر سے چھاپہ مار کارروائیوں کے کئی اسباب تھے۔ ہوسِ زر میں مبتلا یہ سوداگر اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اپنے ملکوں میں لوگوں کو غلام بنانے سے زیادہ منافع غیر ملکی غلاموں کی تجارت میں ہے۔ اس کے علاوہ کئی علاقوں میں ہنرمند اور نیم ہنرمند افراد کی ضرورت تھی۔ ولندیزی سلطنت کو مسالوں کی کاشت اور کان کنی کے لیے بے شمار غلام درکار تھے۔ سماٹرا کی آچے سلطنت کو بھی کاشت کاری اور کانوں پر کام کرننے کے لیے غلام چاہیے تھے۔ بنگال میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی افرادی قوت موجود تھی۔ ہندوستانی غلام مختلف فنون اور دست کاری وغیرہ میں مہارت کی وجہ سے زیادہ قیمت میں فروخت ہورہے تھے اور انہیں افریقہ کی نئی نوآبادیات میں بھی پہنچایا جارہا تھا۔
چٹاگانگ کی بندرگاہ اور شہر پرتگیزیوں کی سرگرمیوں کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ خطہ جنوب مشرقی ایشیا میں ان کی نئی نوآبادیات کو مدد فراہم کرنے کے لیے بھی اہم تھا۔ شاہ جہاں نے جب سے پرتگیزیوں کو ہوگلی سے پسپا کیا تھا تو ان کے لیے اس علاقے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ لیکن ایک صدی کے دوران ولندیزیوں نے خطے میں پرتگال کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پرتگیزی ماضی کے تنازعات کے باجود راکھائن سلطنت جہاں آج میانمار قائم ہے کو مدد فراہم کرتے تھے۔ مغل اور برما کی سلطنت کے بیچ میں ماگھ جارحیت ہی کو بہترین دفاع سمجھتے تھے۔
1663میں بنگال صوبہ شدید مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔مغل سلطنت میں اسے شامل کرنے کے لیے ہونے والی جنگیں بے نتیجہ رہی تھیں اور ان چھاپہ مار کارروائیوں نے بھاری نقصان پہنچایا تھا۔ سابق گورنر جملہ خان اہوموؤں کے ساتھ تباہ کُن جنگ میں مارا گیا تھا۔ اہومو موجودہ بھارت کی ریاست آسام اور اروناچل پردیش کے علاقے میں بسنے والا نسلی گروہ تھا۔ نیا گورنر شائستہ خان شہنشاہ اورنگزیب کا چچا تھا۔ محاذِ جنگ میں اس کا ماضی تابناک رہا تھا لیکن شوا جی کے ہاتھوں شکست کی وجہ سے شہنشاہ اس سے خفا تھا۔ اسی لیے شہنشاہ نے شائستہ خان کو بنگال بھیج دیا تھا۔
شائستہ خان کو سمندر سے ہونے والی لوٹ مار کو روکنے کے لیے تو بھیجا ہی گیا تھا لیکن اس میں انتقام بھی پوشیدہ تھا۔ جانشینی پر اپنے بھائی اورنگزیب سے جنگ میں شکست کے بعد شہزادہ شجاع اور اس کا خاندان راکھائن سلطنت میں پناہ گزین تھا۔ تاریخی روایات میں یہ بات آتی ہے کہ راکھائن بادشاہ نے شجاع اورا س کے بیٹوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا اور اس کی بیٹی کی آبرو ریزی کی تھی جس کے بعد شہزادہ شجاع کی بیٹی نے خودکُشی کرلی تھی۔ شائستہ خان کو اس خون کا بدلہ لے کر شجاع کے خاندان کے باقی زندہ افراد کو واپس لانے کا ہدف دیا گیا تھا۔
شائستہ خان نے تیزی سے سلطنت کا ڈھانچا کھڑا کیا، قلعے تیار کروائے، سڑکیں اور پُل تعمیر کرائے۔ اس کے علاوہ زمینی اور بحری فوج کے بڑے دستے تیار کیے۔ اس کے لیے شائستہ خان نے ولندیزیوں سے بھی مدد لی۔ 1665میں مغلوں نے راکھائن سلطنت کے لیے تزویراتی اہمیت رکھنے والا سندویپ چھین لیا۔ چٹاگانگ پر قبضہ کرنا اہم ہدف تھا۔ اس کے لیے شائستہ خان نے پرتگیزیوں اور راکھائنیوں کے تنازعات کو استعمال کیا۔ شائستہ خان نے پرتگیزیوں کو اپنے آقاؤں سے غداری پر آمادہ کیا۔ انہیں یہ سمجھایا کہ تجارت دوست مغلوں سے ان کا اتحاد زیادہ منفعت بخش ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انہیں اپنا حامی بنانے کے لیے بھاری رشوت بھی دینا پڑی۔ پرتگیزیوں نے راکھائن سے غداری کی اور ڈھاکا تک پہنچ گئے۔ راکھائن فوج تیزی سے چٹاگانگ میں جمع ہوگئی لیکن شائستہ خانہ نے زمین پر ایک فوج بھیجی اور متوازی طور پر مغلوں اور پرتگیزیوں کی بحریہ کو بھی چٹاگانگ روانہ کردیا۔ اس دوطرفہ حملے نے راکھائن فوج کو تباہ کردیا۔
مغل فوجوں کی اس فتح سے خلیجِ بنگال اور اس سے منسلک دریاؤں میں قزاقی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اتفاق ہے کہ آج بنگلادیشیوں اور روہنگیاکے مچھیروں کو اس خطے میں پھر اسی مسئلے کا سامنا ہے۔ تاہم چٹاگانگ کا ہاتھ سے نکلنا ور پرتگیزیوں کی حمایت کا خاتمہ بڑا دھچکا تھا۔ ماگھ بڑے جنگی بیڑے بنانا نہیں جانتے تھے اور انہیں جنگ میں بڑا نقصان ہوچکا تھا۔ دوسری جانب شائستہ خان نے ایک باصلاحیت بحری فوج تیار کی تھی۔ راکھائن پہلے کی طرح سمندر اور بحری راستوں پر کارروائیاں کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ داخلی انتشار اور کرائے کے فوجیوں پر انحصار کی وجہ سے یہ سلطنت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی چلی گئی اور 1784میں اس پر برما نے قبضہ کرلیا۔ البتہ بنگال ایک طویل عرصے تک شائستہ خان جیسے زیرک حکمران کے زیر نگیں آگیا۔
اٹھارہویں صدی کے بعد پرتگیزی اور ان کی اولاد بنگال کی پھیلتی ہوئی سلطنت کا حصہ بنتے چلے گئے۔ مغربی بنگال اور بنگلا دیش کے کلچر میں اس ورثے کا رنگ محسوس کیا جاسکتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭