کرپشن کی مجموعی رقم 774 ارب‘ بیوروکریسی کی مبینہ 474 ارب کی کرپشن جبکہ 21 سیاستدانوں کی کرپشن 195 ارب تھی۔
لسٹ میں نواز شریف کیخلاف صرف 2 انکوائریوں کا ذکر تھا، جبکہ شریف خاندان کیخلاف 9انکوائریاں چل رہی تھیں۔
کسی نے لسٹ کو پڑھا ہی نہیں، 23 انکوائریوں میں رقم کا تعین نہیں، 92 کو17 سال ہوگئے، 42 انکوائریاں کس سٹیج پر پھنسی ہیں۔
میگاسیکنڈلز میں آصف زرداری، میاں منشائ، اسحاق ڈار، راجہ پرویز اشرف اور شاہنواز مری کے نام شامل ہیں۔
نیب جیسے تھی ویسے ہی رہے گی چاہے ترامیم کر دی جائیں۔ چاہے چیئرمین تبدیل کر دیا جائے، اگر نیب کا ماضی دیکھا جائے تو شروع کا ایک سال نکال کر باقی کے تمام سالوں میں نیب کے حوالے سے متنازعہ خیالات سامنے آتے رہے۔ NAB کا سیاستدانوں کی نظر میں حکمرانی کے وقت کچھ اور نظریہ ہوتا ہے اور اپوزیشن کے دور میں کچھ اور ہی ہو جاتا ہے عوام میں بھی کسی حد تک یہی تصور ہی فروغ پاتا ہے۔ ایک حصہ خوش دوسرا حصہ ناراض بہرحالNAB کی کچھ کام ایسے ہیں۔ جن پر واقعی حیرانگی ہوتی ہے۔ ایک ایسا ہی کام کچھ عرصہ پہلے دیکھنے کو ملا۔ جب نیب نے سپریم کورٹ میں 179 شخصیات کے کیس کے حوالے سے میگا سکینڈلز کی لسٹ داخل کی تھی۔ لیکن کسی نے بھی 179 میگا سکینڈلز کی اِس لسٹ کا بغور جائزہ نہ لیا۔ 48 صفحات پر مشتمل یہ لسٹ 12 مختلف کالم پر محیط تھی۔ نیب کی اس لِسٹ میں میں نوازشریف صاحب اور شہباز شریف صاحب کے خلاف نیب میں چلنے والی صرف 2 انکوائریز کا ذکر تھا۔ جب کہ اسی وقت نیب میں شریف خاندان کے خلاف 9 انکوائریز چل رہی تھیں۔ جن دو انکوائیریوں کا ذکر نیب کی اس لسٹ میں تھا ان میں ایک انکوائری جاتی عمرہ شریف برادران کے گھروں کی طرف جانے والی سڑک کی تعمیر تھی۔ دوسری نوازشریف صاحب کی FIA میں 48 ان لوگوں کی بھرتیوں کی انکوائری تھی، جن کو خلاف قانونFIA میں بھرتی کیا گیا تھا۔نیب کی نظر میں صرف یہ ہی دو انکوائریاں تھیں، جو میگا سکینڈلز میں شامل کی جا سکتی تھیں۔ جبکہ باقی 7 انکوائریاں میگا سکینڈلز کا حصہ نہ بن سکیں۔ ایف7 انکوائریوں، ایک انکوائری شریف خاندان کے لندن کے فلیٹس تھے۔ حالانکہ یہی لندن کے فلیٹس والا معاملہ ہی پانامہ پیپرز کے آنے کے بعد نوازشریف صاحب کا اقتدار سے زوال کا سبب بن گیا۔ اسی طرح سے نیب کی میگا سکینڈلز لسٹ میں 23 انکوائریاں ایسی تھیں جن میں نیب لوٹی ہوئی رقم کا تعین ہی نہ کر پاتی 92 انکوائریاں ایسی تھیں جن کو 17,17 سال ہو چکے تھے لیکن 42 کی 42 انکوائریاں صرف اور صرف انکوائریوں کی سٹیج پر ہی پھسی رہیں۔ نہ ہی انویسٹی گیشن میں اپ گریڈ ہو سکیں۔ نہ ہی ریفرنس اور نہ ہی ٹرائل میں جا سکیں۔ ان 42 انکوائریوں میں سابق وزیراعظم نوازشریف سابق Intesin وزیراعظم چودھری شجاعت حسین، سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب اور سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کے خلاف چلنے والی انکوائریاں بھی شامل ہیں۔179 کی میگا سکینڈلز کی لسٹ میں 96 انکوائریاں ایسی تھیں جن کو نیب عرصہ دراز گزر جانے کے باوجود عدالت میں ٹرائل کے لئے لے جا سکی۔ نیب کو شاید اس بات کا اندازہ نہ رہا کہ جن شواہد کی اِن96 انکوائریوں میں ضرورت ہے۔ وہ مل بھی سکتی ہیں یا نہیں نیب کی اس 179 کی میگا سکینڈلز کی لسٹ میں مجموعی طور 635 ارب روپوں کی کرپشن درج تھی۔ جن میں اول نمبر پر پاکستان کی بیورو کریسی، بینکرز کی مبینہ طور پر 474 ارب روپوں کی کرپشن تھی۔ دوسرے نمبر پر21 سیاستدانوں کی 195 ارب روپوں کی کرپشن اور تیسرے نمبر پرائیویٹ لوگوں کی 64 ارب کی کرپشن تھی۔ دوسرے نمبر پر 21 سیاستدانوں کی 195 ارب روپوں کی کرپشن اور تیسرے نمبر پر پرائیویٹ لوگوں کی 64 ارب کی کرپشن تھی۔ ویسے تو21 سیاستدانوں کی مبینہ کرپشن کا مجموعی حجم 195 ارب روپے تھا۔ لیکن ان میں سے 5 سیاستدان ایسے تھے جن کے خلاف 192 ارب40 کروڑ روپوں کی کرپشن کے الزام تھے۔ اور 16 سیاستدانوں کی مجموعی کرپشن کا حجم 2 ارب60 کروڑ روپے تھا۔ ان میں سات سیاستدان ایسے تھے۔ جن کے خلاف نیب کوئی مخصوص چارجز لگانے میں ناکام رہی تھی۔ صرف یہ تھا کہ ان سیاستدانوں کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ تھے۔