تازہ تر ین

عمران خان پر اوچھے وار

حکمران سیاست کی زبان میں اپنے مخالفین کو Opposition کہتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ حکومت کی مخالف اور ناقد ہوتی ہے۔اگر مخالفت میں نرمی برتی جائے تو اسے فرینڈلی اپوزیشن کہتے ہیں۔پاکستان میں ماضی میں فرینڈلی اپوزیشن کی جاتی رہی۔گزشتہ دور حکومت میں وزیراعظم نواز شریف کے مقابل پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ کا اپوزیشن لیڈر بننا، اسی طرح سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں مولانا فضل الرحمان کا قائد حزب اختلاف رہنا فرینڈلی اپوزیشن کی مثالیں ہیں۔ تاہم گزشتہ دور حکومت میں ہی عمران خان نے اپوزیشن لیڈر نہ ہوتے بھی مسلم لیگ ن کی حکومت کو ناکوں چنے چبوائے۔ اسی طرح اب اپوزیشن لیڈر تو میاں شہباز شریف ہیں لیکن اسمبلی ممبر نا ہونے کے باوجود حقیقی اپوزیشن کا کردار مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز ادا کر رہے ہیں۔
جمہوریت میں مضبوط اپوزیشن کو ہمیشہ سراہا جاتا ہے کیونکہ اس سے حکمران بادشاہ بننے کے بجائے راہ راست پر رہتے ہوئے عوام کے خادم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں محبت اور جنگ میں کوئی اصول نہیں ہوتے لیکن جمہوری سیاست میں کچھ اصول موجود ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ن نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر انتہائی گھٹیا حملے کئے۔ ان کے پیلے لباس پر کسی چوک چوراہے نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں ایسے ایسے جملے کسے گئے کہ انہیں ضبط تحریر میں لانا بھی ممکن نہیں۔ بعد میں یہ رہنما اور اور ان کی اولادیں آپس میں مل بیٹھنے پر مجبور ہوئے تو ان جماعتوں کے حامی بھی ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے۔
عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ خان برطانیہ میں اپنی عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر پاکستان میں رہنا چاہتی تھیں لیکن مسلم لیگ ن کے دور میں انہیں طرح طرح سے ہراساں کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان پر ٹائلیں چوری کرنے کا مقدمہ قائم کر کے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی جس پر وہ مایوس اور بددل ہوکر پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور آخر کار معاملات ان کی طلاق پر جا پہنچے۔ آج بھی وہ اس گھٹیا سیاست پر صرف مسلم لیگ ن ہی نہیں پاکستانی قوم سے بھی بجا طور پر شکوہ کناں ہیں کہ وہ پاکستان کی بہو تھیں لیکن انہیں اس وقت ڈیفنڈ نہیں کیا گیا۔ ماضی کی تمام تر شرمندگیوں کے باوجود بھی مسلم لیگ ن اپنی ” عادت” سے باز نہیں آ رہی۔ اپنے قائدین کی بیرون ملک اربوں روپے کی غیر قانونی جائیدادوں اور ماضی میں کی گئی لوٹ مار سے توجہ ہٹانے کے لئے وزیراعظم عمران خان پر نامناسب جملے کسے جا رہے ہیں جنہیں کسی صورت سیاست نہیں کہا جاسکتا۔ ان حرکتوں میں سر فہرست عمران خان کے مذہبی عقائد اور ان کی اہلیہ خاتون اول پر دشنام طرازی ہے۔ مسلم لیگ ن کے باقاعدہ پے رول پر موجود صحافی نا صرف عمران خان کی تسبیح پڑھنے، ان کی طرف سے عید میلاد النبیؐ پر گھر میں چراغاں کرنے اور سرزمین مدینہ منورہ میں عمران خان کے ننگے پاؤں چلنے کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ خاتون اول کے مسلکی نظریات پر بھی طعن و تشنیع کی جا رہی ہے حالانکہ یہ خالصتاً ان کے ذاتی معاملات ہیں جن پر ٹھٹھا مخول کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔
عمران خان آج انوکھی تسبیح پڑھتے ہیں کیا ماضی میں بے نظیر بھٹو ہاتھ میں تسبیح نہیں پکڑا کرتی تھیں؟ بلک ایک لطیفہ مشہور ہے کہ بے نظیر بھٹو سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ تسبیح پر کون سا وظیفہ، ورد کرتی ہیں۔ محترمہ نے جواب دیا کہ وہ آیت الکرسی پڑھتی ہیں۔ جس پر تبصرے کئے گئے کہ آیت الکرسی طویل آیت ہے۔ محترمہ جس طرح تسبیح کے دانے پر دانا پھینکتی ہیں اتنی جلدی کرسی، کرسی تو پڑھی جا سکتی ہے آیت الکرسی پڑھنا ممکن نہیں۔ کیا ماضی میں بے نظیر بھٹو کے بازو پر امام ضامن نہیں باندھا جاتا تھا اور کیا اب بھی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ایسا نہیں کرتے؟ خاتون اول کی پیر پرستی کو آج نشانہ بنایا جا رہا ہے کیا بے نظیر بھٹو کی ایک پیر صاحب کے قدموں میں بیٹھے تصاویر موجود نہیں ہیں۔ کیا آصف علی زرداری کے دور حکومت میں ایک پیر صاحب ان کے ساتھ مستقل موجود نہیں ہوتے تھے جو سیکیورٹی کلیرنس کے بعد بھی ان کی گاڑی پر پھونکیں مارا کرتے تھے۔ کیا نواز شریف اپنی عبادات کی تصاویر میڈیا میں بطور خاص جاری نہیں کیا کرتے تھے۔ کیا اب بھی مریم نواز تسبیح لیکر تصاویر نہیں بنواتیں؟۔ تو وہ سب کچھ جو مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے قائدین کے لئے جائز ہے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے لئے ناجائز کیسے ہو گیا۔ بقول جگر مراد آبادی
یہ جناب شیخ کا فلسفہ
ہے عجیب سارے جہان میں
جو وہاں پیو تو حلال ہے
جو یہاں پیو تو حرام ہے
اپوزیشن حکومت کی مخالفت کرے، ڈٹ کر کرے، کہ یہ اس کا حق ہے۔ مہنگائی ایسا ایشو ہے جس پر احتجاجی تحریک چلا کر حکومت کے چودہ طبق روشن کئے جا سکتے ہیں لیکن ذاتی حملے اور وہ بھی گھریلو خواتین پر مناسب نہیں۔ اپوزیشن کا ٹارگٹ ایک ایسا وزیراعظم ہے جو کرکٹر بھی رہا ہے۔ انگریزی میں غیر منصفانہ، بے ایمانی پر مشتمل حرکتوں پر کہتے ہیں cricket It is just not آپ سیاسی حملے کریں لیکن اوچھے وار نہیں… ورنہ مہنگائی کے خلاف تحریک کے نتائج بھی ضائع کر بیٹھیں گے۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain