تازہ تر ین

گزشتہ20دنوں کے شوشے

سید سجاد حسین بخاری
گزشتہ20دنوں میں ملک بھر میں خطرناک حد تک قیاس آرائیاں ہوتی رہیں جس سے نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی طور پر بھی اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا معاملہ تھا جس کے لئے ایک مخصوص قسم کا طریقہ کار ہے جسے اپنانا ضروری ہوتا ہے اور اس کیلئے 20دن لگ گئے۔ ماضی میں پہلے فائل ورک مکمل کرکے وزیراعظم آفس کو بھیجا جاتا تھا پھر ملاقات میں اس پر اتفاق رائے قائم کرکے آئی ایس پی آر سے اعلان کروایاجاتا تھا مگر اس دفعہ فائل ورک بعد میں اور اعلان پہلے کیاگیا اور سوشل میڈیا پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا خط جاری نہ ہونے پر شوشہ چھوڑ دیا گیا اور یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور تبصرے شروع ہوگئے۔ حکومت مخالف میڈیا گروپ نے خوب تبصرے کئے اور حکومت کو خوب لتاڑا۔
کمال یہ ہے کہ جو فوج پر گزشتہ تین سالوں سے نام لیکر الزام تراشی کررہے تھے وہ بھی فوج کے ہمدرد بن گئے اور وہ بھی کہنے لگے کہ حکومت نے اپنی فوج کے ساتھ بُرا کیا ہے۔ دنیابھر میں ہماری فوج کی رسوائی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ نومبر میں حکومت کا دھڑن تختہ بھی ہونے کے دعوے کئے جارہے تھے اور اس کا نقشہ یار لوگوں نے اس طرح بنایا کہ فوج کا سربراہ اب حکومت مخالف ہوگیا ہے اب اگر وزیراعظم آرمی چیف کی مرضی کا ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو تعینات نہیں کرتے تو پھر فوجی قیادت حکومتی اتحاد میں شامل ایم کیو ایم‘ جی ڈی اے اور ق لیگ کو الگ کرکے پہلے پنجاب اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریکوں کے ذریعے حکومت کا خاتمہ کردے گی۔ کچھ عقل کے اندھے اور نام نہاد تجزیہ نگاروں نے اپنے حلقہئ یاراں میں یہاں تک بھی تبصرے کئے ”قبر ایک ہے اور مردے دو“۔ سوال کیاگیا کہ حضوروہ کیسے؟جواب ملا کہ وزیراعظم اگر جنرل ندیم احمد انجم کا خط جاری نہیں کرتے تو پھر مارشل لا بھی لگ سکتا ہے یا پھر وزیراعظم فوجی سربراہ کو ملازمت سے فارغ بھی کرسکتے ہیں استغفراللہ۔ یعنی ان 20دنوں میں جتنی بیہودہ اور واحیات تبصرہ نگاری ملک بھر میں کی گئی اس سے محب وطن لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی۔ ہر روز نیا شوشہ چھوڑا جاتا کہ حکومت یوں کرنے جارہی ہے اور آگے سے جواب یوں دینے کی تیاری ہوچکی ہے۔ ان 20دنوں میں افواہ ساز اور جھوٹ کی ان فیکٹریوں نے ڈالر کوپَر لگادیئے۔ سٹاک ایکسچینج میں گراوٹ‘ سونے اور اشیا خوردنی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا جس سے غریب کی زندگی اجیرن ہوگئی۔
ان 20دنوں میں سنجیدہ صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا ایک گروپ بھی موجود تھا حالانکہ اس میں چند حکومت مخالف لوگ بھی تھے جنہوں نے خاموشی اختیار کی اور بس ایک ہی جملہ کہا کہ ہمارے نزدیک فوج اور حکومت چونکہ گزشتہ تین سالوں سے ایک صفحے پر ہیں لہٰذا نوٹیفکیشن صرف جنرل ندیم احمدانجم کا ہی ہوگا اس کے علاوہ اس سنجیدہ گروپ نے نہ حکومت کی تبدیلی اورنہ خاتمے کی بات کی اور نہ ہی فوجی سربراہ کی نوکری کے بارے میں کوئی تبصرہ کیا۔ یہ سب چہ میگوئیاں فوج مخالف گروپ نے کیں جس سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ حکومتی وزیروں کی اکثریت بھی عقل کا استعمال کم کرتی ہے ورنہ میڈیا پر وہ اس مسئلے کو سنبھال سکتے تھے۔ بہرحال ان 20دنوں میں جو کچھ ہوا وہ بُرا ہوا اور اس میں حکومتی کمزوری اور نااہلی سرفہرست ہے۔ اب یار لوگ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ سعودی عرب کا دورہ کس نے کرایا؟امریکی اہلکار خصوصی طور پر سعودی عرب میں وزیراعظم کو کس پروگرام کے تحت ملنے کے لئے آئے؟ سعودی عرب نے 3ارب ڈالر اور ایک ارب 20کروڑ ڈالر کا تیل ادھار کس کی سفارش پر دیا؟ اورآئی ایم ایف نے بھی پاکستان کا قرضہ وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب سے پہلے کیوں منظور نہیں کیا؟ ان سب کرم فرماؤں کی محنت کس نے کی؟ عمران خان گزشتہ ماہ امریکی نائب وزیرخارجہ سے کیوں نہیں ملے تھے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے پیچھے ان 20دنوں کی کہانی چھپی ہے جس کی تفصیل پھر سہی۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain