تازہ تر ین

کیاہمارا جوش میں آنا بنتا ہے؟

ندیم اُپل
برسوں پہلے جب ایوب خان کے آخری دور میں بھٹو صاحب نے مہنگائی کو جواز بنا کر ایوب حکومت کے خلاف تحریک چلائی جس نے بالآخر ایوب خان کے دس سالہ سنہری دور کا خاتمہ کر دیا تھا اس تحریک کے دوران جب لاہور میں اے جی آفس کے قریب دو طالب علم شہید ہو گئے تھے تب ایوب خان نے ایک فوجی آمر ہونے کے باوجود اسی وقت اقتدار چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تھا انہوں نے اپنی کتاب،”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ میں بھی تحریر کیا ہے کہ جب ان کی حکومت کے خلاف ہنگاموں میں پولیس کی گولی سے دو طالب علم شہید ہوئے تھے تو انہوں نے اپنی بیگم سے کہا تھا کہ دیکھو میری قوم کے دو طالب علم شہید ہو گئے ہیں کیا میں اب بھی حکومت کرنے کے لائق ہوں؟اور پھر جب حالات واقعی بے قابو ہوگئے توانہوں نے مستعفی ہونے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔قوم سے اپنے آخری خطاب میں انہوں نے کہا،ہم نے سوچا تھا کہ حالات معمول پر آجائیں گے اور ہم خود کو دوبارہ قوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گے مگر بدقسمتی سے حالات بدتر سے بدتر ہوتے چلے گئے۔میں نے ایک بار آپ سے یہ بھی عرض کیا تھا کہ قوم مسائل جوش کے بجائے ہوش سے حل کیے جانے چاہئیں مگر آپ نے دیکھ لیا کہ جوش کی آگ جو ایک مرتبہ بھڑک اٹھی ہے اس کے سامنے ہر شخص بے بس ہو کر رہ گیا ہے۔قومی مسائل کا فیصلہ گلیوں اور چوراہوں میں ہونے لگا ہے۔ہجوم کا شیوہ ہے کہ جہاں چاہا گھیرا ڈال لیا اور جو چاہا منوا لیا لہٰذا میں اپنے ملک کی بربادی کی صدارت نہیں کر سکتا اور مسلح افواج کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ملک کا نظم و نسق سنبھال لیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کو سونپ کر بہت بڑی غلطی کی تھی جن کی قیادت میں ملک دو لخت ہو گیا مگر اس وقت ہمارا موضوع سقوط ڈھاکہ نہیں بلکہ ایوب خان کا ایک سربراہ مملکت کے طور پر ان کا کردار ہے کہ جب ان کی حکومت میں پولیس فائرنگ سے دو طالب علم شہید ہوئے تو انہوں نے اقتدار سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ایک بھی انسانی جان کی کتنی قیمت ہوتی ہے ایوب خان سے زیادہ آج تک آنیوالے کسی بھی حکمران کو ایسا احساس نہیں ہواکہاں اب دو تو کیا دوسو افراد کی جان بھی چلی جائے تو ذمہ داران کی مذمت اور مظلوم سے تعزیت اور معذرت سے آگے بات نہیں جاتی۔آخر صرف افسوس معذرت اور مذمت کے کلچر کے سہارے ہم کب تک چلیں گے کیونکہ ظالم کی مذمت کرنے سے اسے کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ مظلوم سے خالی ہمدردی کرنے سے اس کی اشک شوئی ہوتی ہے۔بات تو تب ہے کہ جب انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔
قارئین! ہمارا موضوع کچھ اور تھا بات ایوب خان کی آخری تقریر پر چلی گئی۔انہوں نے اپنی تقریر میں ایک ہی اہم اور فکر انگیز بات کی تھی کہ قومی مسائل جوش کے بجائے ہوش سے طے کیے جانے چاہئیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ حال ہی میں جو مسئلہ اٹھ کھڑا ہو اہے جس نے پوری قوم کو مسلسل دس بارہ روز تک ذہنی اذیت میں مبتلا کیے رکھا اور ایسے نازک وقت میں جب بعض عناصر جوش دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے جوش کے بجائے ہوش سے کام لے کر انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیا اور بات بگڑتے بگڑتے بن گئی جس کا کریڈٹ بلاشبہ ملک کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ ہمارے جیّد علمائے کرام کو بھی جاتا ہے جنہوں نے آگے بڑھ کر حکومت کی مدد کی اور ملک میں امن و سکون ہوگیا مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے موجودہ حالات میں جب ہم آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں کیا ہمارا جوش میں آنا بنتا ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ جس کام کے کرنے کا فائدہ نہ ہو مگر نقصان کا سو فیصد اندیشہ ہو وہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ایوب خان نے اپنی طاقت کا زور نہیں دکھایا تھا ہوش کے ناخن لیے تھے اور ہمیں قائد اعظم کا سالم پاکستان دے کر اقتدار سے الگ ہوئے تھے مگر بعد میں جنہوں نے جوش دکھایا اپنے گرد ہوس اقتدار اور انا کی بلند و بالا دیواریں کھڑی کیں انہوں نے بابائے قوم کا آدھا پاکستان گنوا دیا مگر اس کے باوجود جوش آج بھی ان کا کم نہیں ہواجبکہ اس وقت ہوش کی تدبر اور فراست کی ضرورت ہے جس کا کریڈٹ بلا شبہ وزیراعظم عمران خان کو دینا پڑے گا۔تاہم اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سچائی کو لے کر آگے بڑھا جائے جو بات ہوئی جو معاہدہ ہوا فریقین کی طر ف سے اس کی پاسداری کی جائے اور اس بات پر نظررکھی جائے کہ کسی بھی طرف سے کوئی خرابی پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ جس ناز ک دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں ذراسی بھی غلطی، کوتاہی یا بھول چوک ہمیں مشکلات کے ایک نئے گرداب میں پھنساسکتی ہے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain