تازہ تر ین

بے نظیر بھٹو کو قتل ہوئے14برس ہوگئے، ہائی پروفائل کیس ، معمہ حل نہ ہوسکا۔رپورٹ: ستارخان

27 دسمبر2007ءکو بینظیر بھٹو کے قتل کا سانحہ پیش آیا۔ جب وہ الیکشن کمپین کے سلسلے میں لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرکے باہر نکلی تھیں۔ شہادت میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں جن میں پتہ لگایا جاسکتا تھا کہ اس کے پیچھے کون کون کارفرما تھا۔ معروف صحافی وکیل انجم نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ جب بینظیر بھٹو نے 6 دسمبر کی رات ایک اجلاس بلایا جس میں ناہید خان بھی تھیں‘ رحمان ملک اور بھی کچھ لوگ تھے۔ جب میں نے انتظامات کا جائزہ لینا تھا کہ لیاقت باغ میں اقدامات کیسے ہیں تقریباً ایک بجے بینظیر بھٹو نے ناہید خان کو اور ایک دو اورلوگوں کو جلسہ گاہ بھیجا کہ وہ انتظامات کا آخری جائزہ لیں تاکہ صبح مقررہ وقت پر وہ جاسکیں۔ وہ ایک بجے نکلیں اور آئی ایس آئی کے جنرل ندیم تاج وہاں ان کی رہائش گاہ پر پہنچے اور انہوں نے مختصر ملاقات میں آتے ہی کہا کہ بی بی آپ کو اس جلسے میں نہیں جانا چاہئے۔ آپ پر کراچی میں حملہ ہوا یہاں بھی بہت خطرات ہیں۔ اس میں زیادہ سنگین صورتحال ہے کہ اس میں آپ اوپن ہوں گی وہاں آپ ٹرک پر تھیں۔ آپ جلسہ ملتوی کردیں۔ اس سے پہلے کہ بینظیر بھٹو کوئی بات کرتیں رحمان ملک مخل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو اتنی بزدل نہیں ہیں کہ وہ آپ کے کہنے پر جلسہ گاہ نہ جائیں۔ یہاں رحمان ملک کی مداخلت معنی خیز تھی۔ صبح بی بی جلسہ میں وقت پر پہنچیں۔ انہوں نے خطاب کیا۔ خالد شاہ کے اشارے بھی سب نے دیکھے۔ لوگوں نے اس کے مختلف مطلب نکالے۔ ڈاکٹر مصدق اس ٹیم میں شامل تھے جنہوں نے پوسٹ مارٹم کیا۔ اس بات کی تصدیق کی بی بی نے بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی۔ بی بی خطاب کرکے نیچے اتریں اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھیں ایک پیچھے گاڑی تھی بلیک کلرکی جس میں انہوں نے کسی خطرے کی صورت میں ریسکیو کا کام کرنا تھا۔ اللہ نہ کرے کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو انہیں محفوظ مقام پر پہنچانا ان گاڑیوں کا کام تھا۔ جس میں رحمن ملک اور دوسرے لوگ موجود تھے۔ اسی دوران بڑی تیزی کے ساتھ رحمان ملک وہاں آئے اور ڈرائیور کو کہا گاڑی میں بیٹھو خود بھی گاڑی میں بیٹھے اور بابر اعوان بھی جو لوگ بھی ان کو بٹھایا ان کو کہا جلدی نکلو ان سے یہ بی بی کی گاڑی سے آگے نکل کے دو فرلانگ آگے چلے گئے۔ انہوں نے محسوس کیا بی بی نے سن رﺅف کا شیشہ کھولنے کو کہا لوگوں نے منع کیا کہ باہر نہ نکلیں وہ باہر آئیں ایک دہشت گرد نے 3 فائر کئے اور ان کی گاڑی ختم ہوگئی۔وہ کہتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم اس لئے ڈکلیئر نہیں کیا کہ آصف زرداری صاحب نے کہا کہ ہم نے پوسٹ مارٹم نہیں کرانا۔ حالانکہ اتنے ہائی پروفائل کیس میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ جن کی تحقیقات ہوتی ہے۔ باہرکی ایجنسیوں نے آنا۔ لوکل ایجنسیوں نے کام کرنا ہے لگتا ہے کہ یہ بیان غالباً درست نہ تھا۔ دوسرا جائے حادثہ کو دھونا‘ ایک ایس پی نے اپنی نگرانی میں کرائم سین دھلوایا۔ میجر شفقت نے مفصل رپورٹ لکھی لیکن اس کی تصدیق کو انکوائری سے الگ کردیا۔ یہ غلطی بھی درست نہ تھی کہ ان کی موت گاڑی کے لیور سے سر ٹکرانے کی وجہ سے ہوئی۔ اس بات کی تصدیق نہ ہوسکی کہ محترمہ لیور لگنے سے شہید ہوئیں یا گولی سے شہید ہوئیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain