سندھ میں گندم کی فصل کی کاشت کم ہونے پر کسانوں نے شکایت کی ہے کہ یوریا کی زیادہ قیمتیں اور بعض اوقات اس کی عدم دستیابی سے صوبے بھر میں فصل کی پیداواری صلاحیت متاثر ہونے کا امکان ہے۔
رپوٹ کے مطابق گندم کے کاشتکاروں نے اس بات پر زور دیا کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے جلد از جلد اقدامات کیے جائیں۔
تاہم، وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار خسرو بختیار کی زیر صدارت فرٹیلائزر ریویو کمیٹی کے ہفتہ وار اجلاس میں انہیں مطلع کیا کہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں یوریا کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی ہے جس کی مقرر کردہ قیمت ایک ہزار 780 فی 50 کلو گرام ہے۔
کمیٹی نے ربیع کے سیزن کے لیے یوریا کے بحران کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قیمت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن سندھ کے اسٹیک ہولڈرز مختلف تصویر ظاہر کر رہے ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل برائے محکمہ زراعت سندھ ہدایت اللہ چھاجرو نے ڈان کو بتایا کہ یوریا کھاد اضافی رقم کمانے کے لیے افغانستان اسمگل کی جا رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’سندھ کو اپنا حصہ نہیں مل رہا ہے اور بڑے ڈیلروں نے ذخیرہ اندوزی کر رکھی ہے اور اسے زائد قیمتوں پر چھوٹے ڈیلروں کو فراہم کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کو 10 لاکھ 45 ہزار تھیلوں کی ضرورت ہے جبکہ کھاد کی فیکٹریوں نے 93 ہزار تھیلے جاری کیے، تھیلوں کا بڑا حصہ بڑے ڈیلروں کو دے دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حیدرآباد، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو محمد خان اور سکھر میں صورتحال کچھ حد تک بہتر ہوئی ہے اور فی بوری کی قیمت میں 150 روپے کی کمی ہوئی ہے۔