دفاعی تحقیق کے امریکی ادارے ’ڈارپا‘ کی نگرانی میں سمندری گہرائی میں خودکار انداز سے سفر کرنے والے ڈرونز کا منصوبہ ’مینٹا رے ڈرون پروگرام‘ اپنے دوسرے اور نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔
اس زیرِ آب ڈرون کے بڑے اور پھیلے ہوئے پر ہوں گے جن کی وجہ سے یہ ’مینٹا رے‘ مچھلی کی طرح دکھائی دے گا۔
اس بارے میں خبروں سے صرف اتنا معلوم ہوا ہے کہ ’مینٹا رے انڈر واٹر ڈرونز‘ کی جسامت بہت بڑی ہوگی لیکن اب تک ان کی حتمی جسامت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔
نئے مرحلے کےلیے دو امریکی دفاعی اداروں، نارتھروپ گرومین اور مارٹن ڈیفنس گروپ کو منتخب کیا گیا ہے جو اپنے اپنے طور پر اصل جسامت والے مینٹا رے ڈرونز تیار کریں گے۔
ان میں سے جو ڈیزائن بھی امریکی محکمہ دفاع (پنٹاگون) کو زیادہ مناسب لگے گا، اسی کو آخری اور پیداواری مرحلے کےلیے منتخب کیا جائے گا۔
’ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹ ایجنسی‘ (ڈارپا) کے مطابق، ایسے کسی بھی ڈرون کو سمندر میں لمبے فاصلے تک پہنچنے کے علاوہ نمکین سمندری پانی کے اندر طویل مدت تک محفوظ اور کارآمد حالت میں رہنے کے قابل بھی ہونا چاہیے۔
علاوہ ازیں، ڈارپا کا یہ تقاضا بھی ہے کہ اس ڈرون کو مرمت اور دیکھ بھال کےلیے انسانی مداخلت کی بھی کم سے کم ضرورت پڑے جبکہ اس کی بیٹریاں بھی طاقتور ہوں جو سمندری پانی کے بہاؤ سے خود کو دوبارہ چارج بھی کرسکیں۔
ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ ’مینٹا رے‘ ڈرونز کا حساس آلات سے لیس ہونا بھی لازمی ہے تاکہ وہ سمندر کی گہرائی میں رہتے ہوئے دور دراز مقامات پر نظر رکھ سکیں اور امریکی افواج کو دشمن آبدوزوں اور بحری جہازوں کی نقل و حرکت سے بروقت آگاہ کرتے رہیں۔
اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ہی امریکی فوج کو خلا، فضا اور زمین کے علاوہ سمندر کی گہرائی میں بھی جاسوسی کی صلاحیت حاصل ہوجائے گی۔