ملتان( لیڈی رپورٹر)جنوبی پنجاب میں خواتین کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ روکا نہیں جا سکا۔خوف وہراس اور عدم تحفظ کے سائے انہیں غیر محفوظ کرتے رہے۔غیرت کے نام پر قتل،گھریلو تشدد، خودکشی، اغوا، زیادتی،تیزاب گردی۔ونی،کم عمری کی شادیاں،کالی قرار دینا اور گھریلو لڑائیاں نصیب بنا کر نہ صرف جینے کا حق چھین لیا گیا بلکہ زندگی بدستور تنگ بنائی گئی۔اس سلسلہ میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق 2021ءمیں1996ءسے زائد خواتین کو سنگین قسم کے تشدد کا سامنا رہا ہے۔قوانین اور ادارے بھی انہیں ظلم و زیادتی سے بچنے کیلئے نجات دہندہ ثابت نہیں ہوسکے۔سال کے اختتام پر قصبہ گورمانی،رحیم یار خان،تونسہ شریف اور وہاڑی میں خواتین کو بھیانک طریقوں قتل کیا گیا اسی طرح خانیوال میں 11 سالہ بچی،ملتان میں 12 سالہ،کبیر والا میں 9 سالہ بچی کی شادی کردی گئی،اسی طرح ملتان،ڈیرہ غازی خان اور وہاڑی میں پرائیویٹ اکیڈمیوں کے ٹیچرز نے بچیوں کی نازیبا ویڈیوز بنائیں اور انہیں بلیک میل کرتے رہے۔سائبر ہراسمنٹ بھی عام رہی۔رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کا نشانہ بنائی گئی خواتین کے1025،غیرت کے نام پر قتل 50،اغوا 321،زیادتی 227، خودکشی، 152،گھریلو لڑائی 175،تیزاب گردی 21،کالی قرار دی گئیں 12،ونی 6،کم عمری کی شادی کے 7 واقعات رجسٹرڈ کیے گئے ہیںجبکہ رپورٹ نہ ہونے والے واقعات کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
خواتین تشدد